گلی نالے پختہ، نرم زمین غائب: پشاور شہر میں سیلاب کا خطرہ ہر وقت موجود رہے گا
محمد فہیم
عوامی نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر 2021 کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں رامداس سے حاجی عبدالرﺅف چیئرمین منتخب ہوئے، وہ مسلسل دوسری بار بلدیاتی انتخابات جیتنے میں کامیاب ہوئے، جبکہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں بھی وہ کونسلر رہ چکے ہیں۔ اختیارات سے محروم 52 سالہ حاجی عبدالرﺅف کہتے ہیں کہ انتخاب کے دوران انہوں نے ووٹروں سے بہت سے وعدے کیے لہٰذا اب ہر ووٹر ان سے کوئی نہ کوئی امید لگائے بیٹھا ہے، کسی کو اپنی گلی میں روشنی کا انتظام کرانا ہے، کوئی اپنے گھر کا راستہ پختہ کرانا چاہتا ہے اور کسی کو گندے پانی کی نکاسی کا مسئلہ حل کرانا ہے۔
حاجی عبدالرﺅف کہتے ہیں کہ جب پہلی بار منتخب ہوا تو علاقہ کے عوام نے گلیاں پختہ کرانے کا مطالبہ کیا تب سے لے کر اب تک گلیاں اور نالیاں ہی پختہ کرنے میں مصروف ہیں، اس کے ساتھ ساتھ دیگر کام بھی کرنے ہوتے ہیں لیکن شہری صرف اور صرف گلیاں اور نالیاں پکی کرانے کو سب سے بڑا کام قرار دیتے ہیں۔
حاجی عبدالرﺅف کی طرح دیگر بلدیاتی نمائندے، ارکان صوبائی و قومی اسمبلی بھی اسی کام پر لگے ہوئے ہیں؛ پشاور کی ہر دوسری گلی میں آپ کو ایک آہنی بورڈ نظر آئے گا جس پر منتخب ارکان کے نام ہوں گے، راستے کی پختگی ہی سب سے بڑا کارنامہ ہے تاہم اس تمام عمل میں یہ بھول گئے کہ اس کیلئے قاعدہ اور قانون بھی ہے جسے سرکاری ادارے مکمل طور پر نظرانداز کر دیتے ہیں۔
پشاور، اندرون شہر کا 95 فیصد سے زائد علاقہ تعمیرات نے گھیر لیا جبکہ شہر میں نرم زمین نہ ہونے کی وجہ سے پشاور میں شہری سیلاب کا خطرہ اب ہر وقت موجود رہے گا۔
جامعہ پشاور کے شعبہ جغرافیہ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سمیع اللہ اس حوالے سے کہتے ہیں کہ پشاور کا شہری علاقہ یعنی پرانی کاپوریشن اس وقت 95 فیصد سے زائد کنکریٹ ہو گیا ہے، اس پر تعمیرات ہیں اور نرم زمین انتہائی کم ہو گئی ہے، اسی طرح اگر ضلع پشاور کی بات کی جائے تو اس کا کل رقبہ ایک ہزار 535 سکوائر کلومیٹر ہے جس کے 20 فیصد حصہ پر تعمیرات ہو گئی ہیں جو مستقبل کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پشاور میں نرم اراضی نہ ہونے کی وجہ سے بارش کا پانی زمین میں جذب نہیں ہو سکتا اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شہری سیلاب آ جاتا ہے، پشاور میں شہری سیلاب کا خطرہ اب ہر وقت موجود رہے گا کیونکہ یہاں نرم زمین نہیں ہے اور اب تک اس زمین کو نرم رکھنے کیلئے خاطر خواہ اقدامات بھی نہیں کئے جا رہے جس کی وجہ سے پشاور کو خطرات لاحق ہوں گے۔
واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسز کمپنی پشاور کی جانب سے شہر میں شہری سیلاب کے خدشہ کے پیش نظر 22 ایسے مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں نکاسی آب کا مسئلہ سنگین صورتحال اختیار کر چکا ہے جبکہ پشاور میں مسلسل گلیوں اور سڑکوں کی پختگی سمیت نالیوں کی پختگی کو بھی شہری سیلاب کی وجوہات قرار دے دیا گیا ہے۔
ڈبلیو ایس ایس پی کی جانب سے مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق کبوتر چوک، غریب آباد، پتنگ چوک، چلڈرن ہسپتال، نیشنل بینک کالونی ورسک روڈ، ہشتنگری چوک، مدینہ کالونی، چارسدہ اور رنگ روڈ کا سنگمی مقام، بادشاہ خان چوک، گلبہار پولیس سٹیشن، جی ٹی روڈ، درانی روڈ، سکندر پورہ بازار، لختی غاڑہ ڈرین، کوہاٹی گیٹ، نوتھیہ بازار پھاٹک چوک، مسکین آباد، عثمانیہ ریسٹورنٹ کے قریب یونیورسٹی روڈ، شاہی کٹھہ سے کوہاٹ روڈ، گیس زون سی این جی ورسک روڈ اور لیبارٹری روڈ شامل ہیں، ان مقامات پر پانی کے بہاﺅ میں مسلسل خلل پڑ رہا ہے جبکہ کئی مقامات پر تجاوزات بھی قائم کئے گئے ہیں جس کی وجہ سے نکاسی آب کو گزرنے کیلئے درکار جگہ نہیں ہے۔
پشاور میں 22 نشیبی علاقے ہیں جہاں ڈیزائن کا مسئلہ ہے یا پھر وہاں پانی کے بہاﺅ میں اضافہ ہونے کی وجہ سے وہاں پانی ابل پڑتا ہے اور یہ پانی راستے میں امڈنے کی وجہ سے نکاسی کا مسئلہ آتا ہے، اس حوالے سے حکومت کو آگاہ کر دیا گیا ہے اور اس پر کام کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ یونیورسٹی روڈ پر تہکال کے پاس اور صوبائی اسمبلی کے سامنے ہاٹ سپاٹ پر کام کیا گیا ہے جسے کشادہ کرتے ہوئے پانی کے بہاﺅ میں گنجائش بڑھا دی گئی ہے۔ کئی علاقے ایسے بھی ہیں جہاں بڑے پیمانے پر کام کرنا پڑے گا، سینی ٹیشن کمپنی اپنے طور پر یہاں پانی کے بہاﺅ کیلئے کام کر رہی ہے اور صفائی مسلسل کی جاتی ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت نے مستقبل میں ممکنہ طور پر سیلاب سے متاثرہ ہونے والے اضلاع کی نشاندہی کیلئے انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کو ٹاسک حوالہ کر دیا ہے جو گزشتہ دو سو سالوں میں آنے والے سیلاب کے ڈیٹا کی بنیاد پر مستقبل میں زیادہ خطرات سے دوچار علاقوں اور اضلاع کی نشاندہی کرے گی۔
خیبر پختونخوا انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کو ان علاقوں کی نشاندہی کرنے کا ٹاسک حوالہ ہوا ہے جو مستقبل میں سیلاب سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس حوالے سے گزشتہ دو سو سالوں کا ڈیٹا درکار ہو گا جو یہ واضح کرے گا کہ کب کہاں اور کس نوعیت کا سیلاب آیا ہے اور اس سیلاب کی شدت کہاں زیادہ محسوس کی گئی ہے اسی کی بنیاد پر مستقبل کے حوالے سے ممکنات تشکیل دی جا سکیں گی۔
ذرائع کے مطابق ان سفارشات کو مرتب کرنے کیلئے انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کو محکمہ بلدیات، محکمہ آبپاشی اور محکمہ مال کے افسران کی خدمات حاصل ہوں گی۔ اجلاس میں میدانی علاقوں میں آنے والے سیلاب پر بھی بحث کی گئی اور بتایا گیا کہ حال ہی میں آنے والے سیلاب کی اونچائی مختلف مقامات پر نوٹ کر لی گئی ہے اسے ہی سیلاب کی اونچائی کی حد قرار دیا جائے گا جبکہ سیلاب کی صورتحال سے متعلق ممکنات تیار کرتے ہوئے سیٹلائٹ تصاویر کی مدد بھی حاصل کی جا سکے گی جس کی مدد سے ممکنہ طور پر متاثرہ علاقوں کو علیحدہ کیا جا سکے گا۔
مسئلہ صرف پشاور تک محدود نہیں ہے بلکہ خیبر پختونخوا کے تمام بڑے شہروں میں اربن فلڈنگ کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے؛ صوبائی ڈزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کی مون سوم 2022 سے متعلق رپورٹ میں بھی اربن فلڈنگ سے متاثرہ علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
صوبائی ڈزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے ترجمان تیمور علی نے اس حوالے سے بتایا کہ گزشتہ برس مون سون میں سیلاب کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا تاہم پشاور، نوشہرہ اور مردان میں اربن فلڈنگ یعنی شہری سیلاب کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔
ماہرین کے مطابق شہری سیلاب کی بڑی وجہ ان تین شہروں میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران مسلسل تعمیرات، نالیوں اور گلیوں کی پختگی اور زرعی اراضی پر تعمیرات ہیں۔ اسی طرح اندرون شہر میں نرم زمین بھی نہیں چھوڑی جا رہی اور ہر گلی و راستہ پختہ کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے پشاور، مردان اور نوشہرہ میں ہونے والی بارش کا پانی زمین میں جذب ہونے کی بجائے سیلابی صورت اختیار کر جائے گا اور اس کا نقصان پورے شہر کو اٹھانا پڑےگا، یہ خدشہ رواں برس کے مون سون میں بھی خطرناک صورت اختیار کر سکتا ہے۔