تعلیم

”شادی، بچے، خاندان سب کام مکمل، اب پڑھائی مکمل کرنی ہے”

انور خان

"شادی، بچے، خاندان سب کام مکمل ہو گئے، اب ادھوری رہ جانے والی پڑھائی مکمل کرنی ہے، کلاس میں باقی طالبات عزت سے آپی کہہ کر بلاتی ہیں۔” وومن یونیورسٹی صوابی کی 39 سالہ طالبہ شبانہ ارمان نے ہنستے ہوئے کہا۔ شبانہ کو گزشتہ روز وومن یونیورسٹی صوابی میں اس وقت داخلے کی خوشخبری ملی جب یونیورسٹی نے طالبات کیلئے عمر کی بالائی حد ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

صوابی خاص عنایت خیل گاؤں سے تعلق رکھنے والی شبانہ نے 2005 میں مقامی سکول سے میٹرک کی تھا، 2008 میں شادی کے بندھن میں بندھ گئیں تو تعلیم کا سلسلہ رک گیا۔ دس سال بعد 2018 میں دوبارہ داخلہ لیا اور تعلیمی بورڈ مردان سے بارہویں جماعت کا امتحان پاس کیا، "ایف اے کرنے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ یہ پیش آیا کہ عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے ریگولر ڈگری کیلئے داخلہ ملنا مشکل ہو گیا، دو تین جگہ کوشش کی لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی، ارادہ پکا تھا اس لئے جب گھر پر تھی تو مختلف کتابیں پڑھتی رہی تاکہ چیزیں بھول نہ جاؤں۔”

شبانہ کے مطابق تعلیم ریگولر جا کر یونیورسٹی میں حاصل کرنی چاہیے، "پرائیویٹ تعلیم کے حق میں نہیں ہوں، یونیورسٹی، کالج اور کلاس میں بیٹھ کر اساتذہ سے جو چیزیں سیکھ سکتے ہیں، وہ کتابوں میں کہاں ملتی ہیں۔”

وومن یونیورسٹی صوابی کی وائس چانسلر شاہانہ عروج کے مطابق عمر کی بالائی حد ختم کرنے کا فیصلہ اکیڈمک کونسل کے اجلاس میں ہوا، ”اس فیصلے کا مقصد کسی وجہ سے تعلیم مکمل نہ کرنے والی خواتین کو موقع دینا ہے، وومن یونیورسٹی میں اب ہر عمر کی خواتین کسی بھی شعبے میں میرٹ پر داخلہ لے سکتی ہیں۔”

ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے قواعد و ضوابط کے مطابق بی ایس میں داخلے کیلئے عمر کی بالائی حد 22 سے 24 سال مقرر ہے تاہم خودمختار جامعات عمر کی بالائی حد خود بھی مقرر کر سکتی ہیں، ”ترقی یافتہ دنیا میں کوئی بھی کسی بھی عمر میں ڈگری کیلئے داخلہ لے سکتا ہے، یہ کیا بات ہوئی کہ عمر زیادہ ہے تو اپ تعلیم حاصل نہیں کریں گے، کسی پر تعلیم کے دروازے بند نہیں ہونے چاہئیں چاہے عمر بیس سال ہو یا ساٹھ سال!” شاہانہ عروج نے ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں یہ اہم نکتہ واضح کرتے ہوئے بتایا۔

شاہانہ عروج کے مطابق انہیں داخلے کیلئے تین ایسی درخواستیں موصول ہوئی تھیں جن کی عمریں مقرر حد سے زیادہ تھیں لیکن ان کی خواہش تھی کہ وہ یونیورسٹی میں پڑھیں، ”کوشش کر رہے ہیں کہ مستقبل میں زیادہ عمر کے لوگوں کیلئے الگ پروگرام شروع کریں۔”

دوسری جانب سینئر بیوروکریٹ اور ماہر تعلیم ظریف المعانی نے بھی اسے ایک بہت اچھا قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی کام شروع میں آسان نہیں ہوتا تاہم وقت گزرنے کے ساتھ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، "تعداد زیادہ ہونے کی صورت میں الگ کلاسز کا اہتمام بھی کیا جا سکتا ہے، وہ زیادہ بہتر ہو گا، پوری دنیا میں لوگ نوکری بھی کرتے ہیں اور پڑھتے بھی ہیں، اچھی بات یہ ہو گی کہ ہم زیادہ عمر کے لوگوں کیلئے ایک پورا سسٹم بنائیں۔”

محکمہ تعلیم کے پاس دستیاب اعداد و شمار کے مطابق اس وقت خیبر پختونخوا میں 5 سے 16 سال کی عمر کے 20 لاکھ سے زائد بچے سکول سے باہر ہیں جن میں سے دو تہائی تعداد لڑکیوں کی ہے، صوبے میں اس وقت تعلیم سے رہ جانے والے بچوں کیلئے یونیسف کے تعاون سے ‘الٹرنیٹیو لرننگ پاتھ وے’ کے نام سے پروگرام شروع کیا گیا ہے، اس کیلئے دس اضلاع میں 90 ایسے سنٹر قائم کئے گئے ہیں جہاں اس وقت سکول سے رہ جانے والے لڑکوں اور لڑکیوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔

شبانہ ارمان کے شوہر خالد ابرار نے وومن یونیورسٹی کے اس اقدام کو سراہا اور کہا کہ اب زیادہ عمر کی خواتین کیلئے اعلی تعلیم کا راستہ کھل گیا ہے، علاقے کے لوگوں کو چاہیے کہ اگر ان کے گھر کی خواتین تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں تو ان کے ساتھ تعاون کریں کیونکہ زیادہ عمر اب کوئی رکاوٹ نہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button