ضلع خیبر کی سکھ کمیونٹی علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیوں ہے؟
خادم خان آفریدی
خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر میں سو سال سے زائد عرصے سے آباد سکھ کمیونٹی کے افراد علاقہ چھوڑ کر جا رہے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ باڑه اور تیراہ کے بازاروں میں تجارتی سرگرمیاں ماند پڑنے لگی ہیں۔
پاپیندر سنگھ کا تعلق قبیلہ کمرخیل باڑہ سے ہے، پچھلے 30 سال سے باڑہ بازار میں کاروبار کر رہے ہیں، ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ باڑہ بازار میں 2005 سے پہلے سکھ کمیونٹی کی چار سو تک دکانیں تھیں اور بہت اچھے طریقے سے کاروبار چل رہا تھا، لیکن 2005 کے بعد سکھ تاجروں کو تنگ کرنا شروع کیا گیا جس کی وجہ سے زیادہ تر سکھ تاجر باڑہ بازار سے ملک کے دیگر علاقوں میں چلے گئے، ”کچھ باقی رہ جانے والے سکھ تاجر آئی ڈی پیز کے دور میں یہاں سے پشاور اور پنجاب منتقل ہوئے اور پھر آئی ڈی پیز کی اپنے علاقے میں واپسی کے ساتھ ساتھ سکھ تاجروں نے بھی باڑہ بازار کا رخ کر لیا۔”
خیال رہے کہ خیبر میں سکھ کمیونٹی کی تاریخ بہت نہیں تو تھوڑی بہت ضرور قدیم ہے، رنجیت سنگھ کے زمانے سے یہاں سکھ کمیونٹی آباد ہے، اس وقت سکھ کمیونٹی کے قبائلیوں اور آفریدی اقوام کے ساتھ سکھ بہت اچھے روابط تھے، تقسیم ہند کے وقت پورے پاکستان سے سکھ کمیونٹی ہندوستان چلی گئی لیکن قبائلی علاقوں میں رہائش پذیر سکھ کمیونٹی کو یہاں کے مقامی لوگوں نے باقاعدہ پناہ دی جن میں خیبر، کرم اور اورکزئی کے قبائل شامل ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ سکھ کمیونٹی نے یہاں اپنے کاروبار شروع کئے، بعد میں بڑے پیمانے پر بھی تجارتی سرگرمیاں کرتے رہے اور قبائلی علاقوں سے پاکستان کے دیگر حصوں میں بھی منتقل ہوتے گئے اور اپنی جائیدادیں خرید لیں، سکھوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے ایک وقت میں ضلع خیبر کا مشہور باڑہ بازار سکھ گڑھی کے نام سے مشہور تھا۔
پاپیندر سنگھ نے مزید بتایا کہ باڑہ بازار میں سکھ تاجروں کی کاروباری سرگرمیاں ختم ہونے کے قریب پہنچ چکی ہیں جس کی بنیادی وجوہات میں سے ایک گزشتہ سال بٹہ تل بازار میں نامعلوم افراد کی جانب سے سکھ تاجروں کو ٹارگٹ کرنا ہے، ”دو سکھ تاجروں رنجیت سنگھ اور گل جیت سنگھ کو فائرنگ کر کے قتل کیا گیا جس کی وجہ سے تاجر برادری میں خوف و ہراس پھیل گیا۔”
پاپیندر سنگھ کے مطابق مقتول رنجیت سنگھ کے خاندان کی باڑہ بازار میں دس مختلف دکانیں تھیں جن میں سے اب صرف ایک دکان رہ گئی ہے، باقی یہاں سے ننکانہ صاحب اور حسن ابدال پنجاب منتقل ہو گئے ہیں، جبکہ دوسری وجہ مارکیٹوں کے مالکان کی جانب سے کرایوں میں خودساختہ اضافہ ہے، موجودہ وقت میں ایک طرف مہنگائی ہے اور دوسری طرف روزگار نہ ہونے کے برابر ہے لیکن مارکیٹوں کے مالکان سکھ تاجروں کو تنگ کر رہے ہیں کرایوں میں بے تحاشہ اضافے سمیت مختلف قسم کے ڈیمانڈ کرتے ہیں جس کی وجہ سے عام تاجروں کو سخت مشکلات درپیش ہیں، ”موجودہ وقت میں باڑہ بازار میں سکھ تاجروں کی اٹھارہ دکانیں موجود ہیں لیکن ان میں سے بھی کئی تاجر ایک مہینے دو کے مہمان ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جب باڑہ میں سکھ تاجروں کو قتل کیا گیا تو اس وقت ایف سی کی جانب سے سکھ تاجروں کو باڑه بازار میں سیکورٹی دی گئی جو دن کے ایک مخصوص وقت، صبح 7 سے شام پانچ بجے، تک تھی لیکن اب وہ بھی ختم کر دی گئی، جبکہ ہمیں اسلحہ کا لائسنس بھی جاری نہیں کیا جاتا، اگر آنے والے وقت میں ضلعی انتظامیہ اور اعلی حکام کا رویہ سکھ تاجروں کے ساتھ ایسا ہی رہا تو یہ خدشہ ہے کہ یہ بھی یہاں سے پشاور اور پنجاب منتقل ہو جائیں گے، جبکہ ضلع خیبر کی وادی تیراہ اور باڑہ سے سکھ کمیونٹی کے کئی گھرانے ہندوستان بھی منتقل ہو چکے ہیں جن میں باڑہ کے مشہور خاندانی حکیم مان سنگھ بھی شامل ہیں جو آج کل نیو دہلی میں زندگی گزار رہے ہیں۔
پاپیندر سنگھ نے وادی تیراہ میدان میں مقیم سکھ کمیونٹی کے حوالے سے بتایا کہ وادی تیراہ میدان کے باغ مرکز میں سکھ تاجروں کی دس بارہ دکانیں ہیں لیکن وہاں پر بھی حالات ٹھیک نہیں اور وہ بھی وہاں سے نقل مکانی کی کوششیں کر رہے ہیں، ”کالعدم تنظیم لشکر اسلام کے دور میں سکھ رہائشیوں اور تاجروں سے جزیہ وصول کیا جاتا تھا جس پر ہم خوش تھے کیونکہ وہ ہمیں تحفظ بھی فراہم کرتے تھے لیکن آج سکھ تاجروں سے فون کالز سمیت دیگر طریقوں سے بھتہ کی ڈیمانڈز کی جاتی ہیں اور باقاعدہ دھمکیاں بھی دیتے ہیں لیکن ڈر کی وجہ سے ظاہر نہیں کرتے اور اپنا علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہیں (حالانکہ) باڑه اور تیراہ میں ہماری اپنی جائیدادیں ہیں جبکہ بیشتر سکھ شہری یہاں اپنی جائیدادیں فروخت کر کے علاقہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں، پورے ضلع خیبر میں صرف دو گھرانے آباد ہیں اور وہ بھی وادی تیراہ میدان میں ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ بدامنی کے باعث سکھ کمیونٹی بھی آئی ڈی پیز بن چکی تھی لیکن حکومت اور غیرسرکاری تنظیموں کی جانب سے کوئی ریلیف نہیں دیا گیا، باڑہ بازار میں عام تاجروں کو سمیڈا کی جانب سے گرانٹ جاری کیا گیا لیکن اس پروگرام میں بھی سکھ تاجروں کو کوئی حصہ نہیں دیا گیا، حکومت کی جانب سے ضلع خیبر کے مائنارٹینز فنڈز کو بھی صرف جمرود اور لنڈی کوتل میں خرچ کیا جاتا ہے جبکہ باڑہ میں مقیم سکھ کمیونٹی کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا ہے، سکھ شہری بھی خیبر کے بنیادی رہائشی ہیں لیکن ایم پی اے قبائلیوں کی مائناریٹیز سیٹ پر ایک کرسچن کو ایم پی اے بنایا گیا جو سکھ کمیونٹی کے ساتھ سراسر ظلم ہے، ایک طرف نامعلوم افراد کی جانب سے بھتہ وصولی کی دھمکیاں تو دوسری طرف باڑہ اور تیراہ میں مارکیٹوں کے مالکان کی جانب سے سختی اور کرایوں کی مد میں بے جا ڈیمانڈز سے سکھ تاجر تنگ آ چکے ہیں۔”
پاپیندر سنگھ نے ان تمام مسائل کے حل کے لیے حکومت اور ضلعی انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ سب سے پہلے انہیں تحفظ فراہم کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ سکھ تاجروں کو بھی سمیڈا گرانٹ دی جائے جبکہ سکھ کمیونٹی کیلئے باقاعدہ انڈونمنٹ فنڈ قائم کیا جائے اور سکھ تاجروں کے دیگر مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کئے جائیں۔
دوسری جانب انجمن تاجران باڑہ کے مرکزی صدر علی محمد آفریدی نے باڑہ بازار کی مجموعی تجارتی سرگرمیوں کے حوالے سے بتایا کہ باڑہ بازار میں کاروباری سرگرمیاں کمزور ہوتی جا رہی ہیں جس کی بنیادی وجہ ملک میں جاری مہنگائی ہے، ”یہاں کے مقامی لوگ آئی ڈی پیز ہو چکے تھے، یہاں کے مقامی تاجر مسلسل 10 تک مِلِٹِنسی اور فوجی آپریشنوں کی وجہ سے بہت متاثر ہو چکے ہیں، جب 2016 میں باڑہ بازار دوبارہ کاروباری سرگرمیوں کے لیے کھولا گیا تو مقامی تاجروں نے باڑہ بازار کی مجموعی آبادکاری کے لیے سرتوڑ کوششیں شروع کیں اور صوبے کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے باڑہ بازار کے پرانے تاجروں کے ساتھ رابطے شروع کئے کہ اب باڑہ میں امن قائم ہو چکا ہے لہذا آپ اپنے کاروبار دوبارہ باڑہ بازار میں شروع کریں اور اسی طرح آہستہ آہستہ بازار آباد ہونا شروع ہو گیا، عسکری قیادت سمیت ضلعی انتظامیہ کے ساتھ بار بار میٹنگز کی گئیں جن میں سکھ کمیونٹی کے تاجر بھی شامل تھے اور باڑہ بازار میں دوبارہ کاروبار شروع کرنے سے ڈرتے تھے کہ ایسا نہ ہو کہ ہم کاروبار شروع کریں اور حالات دوبارہ خراب ہو جائیں لیکن ہم ان سب تاجروں کو یقین دہانی کراتے تھے، ان میں افغان تاجر بھی ہیں جن کو تقریباً دو سال تک یہاں دکان کھولنے کی اجازت نہیں تھی جبکہ بعد میں ضروری کارروائی کے بعد افغان کارڈ ہولڈرز کو کاروباری سرگرمیاں کرنے کی اجازت دی گئی اور اس کی وجہ سے باڑہ بازار کافی حد تک آباد ہوا، لیکن بدقسمتی سے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور امن و امان کی ابتر صورتحال کی وجہ سے باڑہ بازار میں کاروباری سرگرمیاں کافی حد تک متاثر ہوئی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال مئی میں بٹہ تل بازار میں سکھ تاجروں کو ٹارگٹ کیا گیا جس کی وجہ سے سکھ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے کئی تاجر اپنی ذاتی دکانیں بیچ کر یہاں سے پشاور اور دیگر علاقوں کو منتقل ہوئے، جبکہ باڑہ بازار میں کئی سکھ تاجروں کو ایف سی کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر سیکیورٹی بھی دی گئی جس کی بدولت سکھ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے کچھ تاجروں کی تجارتی سرگرمیاں باڑہ بازار میں جاری ہیں۔
مرکزی صدر کے مطابق باڑہ بازار میں سیکورٹی کے انتظامات نہایت کمزور ہیں جس کی وجہ سے ڈکیتی کے کئی واقعات بھی رونما ہوئے اور مزید وارداتوں کا خطرہ ہے، باڑہ بازار کی سیکیورٹی کو بہتر کرنے کے لیے ڈی پی او خیبر باقاعدہ باڑہ بازار کے لیے نفری تعینات کریں اور سی سی ٹی وی کمیرے نصب کئے جائیں تاکہ اندرونی اور بیرونی تاجروں کو پرامن ماحول میسر ہو سکے۔
قبیلہ ملک دین خیل باڑہ سے تعلق مگر موجودہ وقت میں پشاور میں رہائش پذیر باڑہ کے ایک اور دوکاندار امیر سنگھ نے بتایا کہ وہ گزشتہ تین دہائیوں سے باڑہ بازار میں کاروبار کر رہے ہیں، ”جب باڑہ بازار دوبارہ آباد ہوا تو 2017 میں ہم نے اپنا روزگار واپس باڑہ بازار منتقل کر دیا، اور میرے ساتھ سکھ کمیونٹی کے تقریباً 15 دکاندار واپس باڑہ بازار منتقل ہوئے لیکن مہنگائی اور بڑھتی ہوئی بدامنی کی وجہ سے کئی سکھ تاجر اپنا روزگار باڑہ سے واپس پشاور منتقل کرنے پر مجبور ہوئے۔”
امیر سنگھ کے مطابق ایک وقت میں باڑہ بازار سکھ تاجروں کے لیے ہر لحاظ سے پسندیدہ اور پرامن بازار ہوا کرتا تھا لیکن آج سکھ تاجروں کے لیے یہ ایک غیرمحفوظ بازار مانا جاتا ہے، پچھلے ادوار میں اور آج کے دور میں باڑہ بازار کی مجموعی تجارتی سرگرمیاں 70 فیصد تک کم ہو گئی ہیں جبکہ اب تو روز بروز کمزور ہوتی جا رہی ہیں جس کی بنیادی وجہ مہنگائی اور بڑھتی ہوئی بدامنی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ باڑہ میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کی وجہ سے مقامی رہائشیوں میں درجنوں خاندان سکھ کمیونٹی کے بھی تھے جو یہاں سے پشاور اور دیگر علاقوں کو آئی ڈی پیز کی شکل میں منتقل ہوئے، اس وقت باڑہ بازار میں سکھ تاجروں کی لگ بھگ تین سو دکانیں تھیں لیکن آج صرف 15 دکانیں رہ گئی ہیں باقی پشاور سمیت دیگر علاقوں میں اپنا کاروبار کر رہے ہیں جن میں زیادہ تر پنساری، کپڑا، جنرل سٹورز اور دیگر کاروبار کرنے والے شامل ہیں، ”جب 2015 میں باڑہ کے مقامی لوگوں کی اپنے علاقوں میں واپسی ہوئی تو سکھ کمیونٹی کے لوگ واپس نہیں آئے البتہ وادی تیراہ میدان شلوبر سے تعلق رکھنے والا واحد سکھ گھرانہ اپنے علاقہ تیراہ شلوبر منتقل ہوا باقی پشاور سمیت دیگر علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔
امیر سنگھ نے کہا کہ گزشتہ سال مئی میں سکھ تاجروں کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد باڑہ بازار میں کئی سکھ تاجروں نے اپنا کاروبار ختم کر دیا، ”چند سکھ دوکانداروں کے تحفظ کے لیے ایف سی نے ہر دکان پر سیکورٹی تعینات کی لیکن اب 15 دن سے زیادہ ہو گئے کہ وہ سیکورٹی بھی موجود نہیں ہے جس کا ہم مطالبہ کرتے ہیں، ہمیں دوبارہ سیکورٹی فراہم کی جائے۔”
دوسری جانب قبیلہ اکاخیل سے تعلق رکھنے والے معروف تاجر حاجی گل مین شاہ آفریدی نے باڑہ بازار کی مجموعی تجارتی سرگرمیوں میں کمی کے حوالے سے ٹی این این کو بتایا کہ باڑہ بازار کی تجارتی سرگرمیوں میں کمی کی وجہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے، پچھلے ادوار میں مہنگائی نہیں تھی تو روزانہ کی بنیاد پر روزگار کا پیمانہ بڑھتا جا رہا تھا جبکہ آج کے دور میں عوام کی قوت خرید نہ ہونے کے برابر ہے، ”حکومت کی جانب سے تاجروں پر بے جا ٹیکس عائد کرنا، تاجروں کو بلاوجہ تنگ کرنا اور سب سے بڑھ کر تجارتی سرگرمیوں پر امن و امان کی صورتحال سب سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہے، باڑه بازار کے تاجر پہلے سے ڈرے ہوئے ہیں پچھلی بار ہر ایک دوکاندار نے لاکھوں کا نقصان اٹھایا ہے جس کی وجہ سے تاجر بازار میں کاروباری سرگرمیاں محدود رکھتے ہیں کہ کہیں دوبارہ وہی حالات پیدا نہ ہو جائیں جس کی زندہ مثال سکھ تاجروں کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک علاقے میں روزگار کے لیے سب سے اہم چیز امن ہے، ”جب حکومت تاجروں کو پرامن ماحول دے گی تو کاروباری سرگرمیاں خود بخود بڑھیں گی، اور اس کے ساتھ ساتھ بلاسود قرضوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے، حکومت کی جانب سے ابھی تک باڑہ بازار کے تاجروں کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا ہے جو قابل افسوس ہے۔”