سیاست

پی ٹی آئی کی جیل بھرو تحریک: کیا کسی جرم کے بغیر کوئی جیل جا سکتا ہے؟

عثمان دانش

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز اپنے ایک خطاب کے دوران الیکشن میں تاخیر کے خلاف 22 فروری کو لاہور سے ‘جیل بھرو تحریک’ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اپنے خطاب میں عمران خان نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت انہیں اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے خلاف مقدمات بنا کر جیل بھیجنے کے چکر میں ہے اور انتخابات سے بھاگنے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلیوں کے انتخابات میں تاخیر آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

عمران خان کے اعلان کے بعد پشاور میں بھی پاکستان تحریک انصاف نے جیل بھرو تحریک شروع کرنے کا حتمی فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں سابق صوبائی وزیر اشتیاق ارمڑ نے پارٹی کارکنان کو جمعرات سے گرفتاریاں دینے کی ہدایت کی ہے۔

اشتیاق ارمڑ کے بقول 23 فروری کو ہشتنگری کے مقام جی ٹی روڈ پر بیٹھ کر گرفتاریاں دیں گے جس کے پہلے مرحلے میں چار اسمبلی اراکین اور بعد میں ضلعی قیادت گرفتاریاں دے گی۔

پی ٹی آئی کی جانب سے جاری شدہ جیل بھرو تحریک کے مطابق 22 فروری کو لاہور سے تحریک کا آغاز ہو گا، 200 ارکان پہلے روز گرفتاری دیں گے، 23 فروری کو پشاور میں پی ٹی آئی کارکنان گرفتاری دیں گے، 24 فروری کو راولپنڈی، 25 کو ملتان، 26 گوجرانوالہ، 27 سرگودھا، 28 فروری کو ساہیوال اور یکم مارچ کو فیصل آباد والے گرفتاریاں دیں گے۔

جیل بھرو تحریک اور گرفتاریوں کے بارے میں قانون کیا کہتا ہے؟

سپریم کورٹ کے وکیل دانیال چمکنی کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے جو جیل بھرو تحریک کا نعرہ لگایا ہے اور لوگ بغیر کسی جرم کے گرفتاریاں دینے کے لئے خود کو پیش کر رہے ہیں یہ اس طرح نہیں ہوتا کہ کسی کو بغیر جرم کے جیل میں بند کیا جائے۔

دانیال کے بقول جیل سپرانٹنڈنٹ مجسٹریٹ کے حکم کے بغیر کسی کو جیل میں نہیں رکھ سکتا، جیل کا اپنا ایک پراپر مینول ہوتا ہے، جب کسی ملزم کو جیل بھیج دیا جاتا ہے تو اس کی باقاعدہ انٹری ہوتی ہے، ملزم کے ساتھ جرم لکھا جاتا ہے کہ کس جرم کے تحت اس کو گرفتار کر کے جیل بھیجا گیا ہے، اس کے ساتھ یہ بھی لکھا جاتا ہے کہ کس تھانے سے ملزم آیا ہے۔

دوسری جانب پشاور ہائیکورٹ کے وکیل علی گوہر درانی کا جیل بھرو تحریک کے حوالے سے کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے جو تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس کی کوئی منطق سمجھ نہیں آ رہی، قانون کے مطابق جب کوئی شخص غیرقانونی کام کرتا ہے تو اس کے بعد پولیس/سیکیورٹی ادارے اس کو گرفتار کر کے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرتے ہیں اور عدالت جب ملزم کو جیل بھیجنے کا حکم دیتی ہے تو پولیس اس کے بعد ہی ملزم کو جیل بھیجتی ہے۔

علی گوہر درانی ایڈوکیٹ نے بتایا کہ پی ٹی آئی والے جو کہہ رہے ہیں کہ ہم جیل جائیں گے، کارکنان گرفتاری دیں گے اور جیلیں بھریں گے تو سوال یہ ہے کہ حکومت ان کو جیل میں کیوں بند کرے گی جب انہوں نے کوئی غیرقانونی کام نہیں کیا، یہ کوئی غیرقانونی کام کریں گے تو پھر جیل جائیں گے ایسے کسی کو پولیس جیل میں بند نہیں کر سکتی۔

علی گوہر نے بتایا کہ قانون میں ایسی کوئی شق موجود نہیں ہے کہ کسی کو اس کی خواہش پر جیل میں ڈالا جائے، جیل حکومت کے پیسوں پر چلتی ہے، جیل میں قیدیوں کو سہولیات فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، اب یہ جیل جائیں گے تو ان کا خرچ کون برداشت کرے گا، حکومت بھی ان کو گرفتار نہیں کرے گی۔

دوسری طرف دانیال چمکنی ایڈوکیٹ نے بتایا کہ جیل میں کسی ملزم کو بھیجنے کے لئے قوانین موجود ہیں، پاکستان پینل کوڈ اور سی آر پی سی میں یہ طریقہ کار واضح ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جب کوئی شخص جرم کرتا ہے تو پولیس کے پاس اختیار ہے کہ اس کے خلاف ایف آئی درج کرے جس کے بعد ملزم کے خلاف کارروائی کا آغاز ہوتا ہے اور ملزم کو گرفتار کیا جاتا ہے، پھر 24 گھنٹوں کے اندر ملزم کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، پولیس کو اگر ملزم سے مزید تفتیش کی ضرورت ہو تو عدالت سے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی جاتی ہے، عدالت اگر سمجھتی ہے کہ تفتیش کی ضرورت ہے تو پھر ملزم کو ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا جاتا ہے، اگر پولیس کو مزید تفتیش کی ضرورت نہیں تو عدالت ملزم کو پھر 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیتی ہے جس کے بعد ملزم ضمانت کے لئے درخواست دے سکتا ہے، قانون میں کسی بھی ملزم کو جیل بھیجنے کا یہ طریقہ کار ہوتا ہے۔

”پولیس کے پاس کسی شخص کو بغیر کسی وجہ کے گرفتار کرنے کا اختیار نہیں”

دانیال چکمنی ایڈوکیٹ نے بتایا کہ ویسٹ پاکستان مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس 1960 کے سیکشن 3 میں یہ پاور ڈپٹی کمشنر کو بھی دیا گیا ہے، یہ وہ وقت ہو گا جب امن امان کا ایشو پیدا ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے عوام کو مشکلات کا سامنا ہو تو پھر 6 مہینے تک وہ کسی شخص کو حراست میں رکھ سکتے ہیں۔

جیل بھرو تحریک ماضی میں

علی گوہر درانی ایڈوکیٹ نے بتایا کہ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں پاکستان پیپلزپارٹی جو اس وقت ایم آر ڈی (موومنٹ فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی) کا حصہ تھی، اس نے جیل بھرو تحریک شروع کی تھی، اب پی ٹی آئی جیل بھرو تحریک شروع کر رہی ہے لیکن یہ کوئی اچھی سٹریٹجی معلوم نہیں ہو رہی، پیپلزپارٹی نے جنرل ضیاء الحق دور میں جب جیل بھرو تحریک شروع کی تھی تو اس وقت بھی کسی کو بغیر کسی وجہ کے گرفتار نہیں کیا گیا تھا، اس وقت لوگ سڑکوں پر نکلے، طلباء بھی یونیورسٹی کالجز کے سامنے احتجاج کے لئے نکلے اور صدر کے خلاف نعرے لگائے، قانون توڑا تو اس وقت کچھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا لیکن بعد میں ان کو چھوڑ دیا گیا تھا۔

صحافی لحاظ علی نے بتایا کہ اس سے پہلے جیل بھرو تحریک علاقہ تنظیموں نے بھی چلائی تھی، سندھ میں بھٹو کے خلاف کچھ تنظیموں نے 1974/75 میں جیل بھرو تحریک شروع کی تھی، اس کے بعد پیپلزپارٹی نے جنرل ضیاء الحق کے خلاف تحریک شروع کی لیکن قانون میں ایسا کچھ نہیں کہ کسی کو بغیر کسی وجہ کے جیل میں بند کیا جائے، اس وقت کچھ ایسا ہوا تھا کہ پیپلزپارٹی کے کچھ رہنماؤں کو 3 ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے بعد دیگر کارکنان نے بھی تحریک شروع کی لیکن یہ ایسا نہیں ہوتا کہ 100 لوگ جائیں اور سب کو جیل میں بند کیا جائے، جن لوگوں پر مقدمات ہوں ان کو گرفتار کیا جاتا ہے لیکن جس نے کوئی جرم نہیں کیا تو اس کو گرفتار نہیں کیا جاتا۔

لحاظ علی نے بتایا کہ 1939 میں بھی ایسی تحریک شروع کی گئی تھی، اس وقت جب صوبائی اسمبلی کو تحلیل کیا گیا تو اس وقت بھی کچھ تنظیموں کی جانب سے جیل بھرو تحریک شروع کی گئی تھی لیکن بات سادہ یہی ہے کہ جب تک کسی نے کوئی جرم نہیں کیا ہوتا اس کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button