دہشت گردی کے منڈلاتے سائے، امن، میڈیا اور ہم
خالدہ نیاز
امن کیا ہوتا ہے اور کتنا ضروری ہے اس کا جواب شاید وہی لوگ صحیح دے سکتے ہیں جنہوں نے چند دن قبل پشاور پولیس لائنز میں اپنے پیاروں کو کھویا ہے، کسی نے اکلوتے بیٹے کو کھو دیا تو کسی کا سہاگ اجڑا ہے، کوئی باپ کے سائے سے محروم تو کسی نے اپنے بازو کو کھو دیا ہے۔
ہمارا ملک اور خصوصی طور پر ہمارا صوبہ خیبر پختونخوا دہشت گردی سے بہت متاثر ہوا ہے، یہاں سکول جانے والے معصوم بچے بھی دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہیں، ہماری خواتین کے سروں سے مردوں کا سایہ چھینا گیا ہے تو بچوں سے ان کی خوشیاں چھن چکی ہیں۔
یہاں مسجد محفوظ ہے نہ مندر اور نہ ہی چرچ یہاں تک کہ تعلیمی ادارے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم امن کو ترسے ہوئے لوگ ہیں، ہم امن تو چاہتے ہیں لیکن امن کے لیے بھرپور آواز اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے۔ اور اگر آواز اٹھاتے بھی ہیں تو ہماری آواز کو دبا دیا جاتا ہے، میڈیا پہ بھی اس حوالے سے اس طرح کوریج نہیں کی جاتی جس طرح ہونی چاہئے۔
پچھلے دنوں ایک ٹریننگ میں حصہ لیا جس کا عنوان تھا، ”میڈیا وائسز فار پیس”، جس کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ میڈیا کس طرح امن کے قیام کے لیے کام کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ٹریننگ میں اس حوالے سے بھی بات ہوئی کہ مذہبی اقلیتوں کے کیا مسائل ہیں اور ہم اتنے انتہاپسند کیوں ہو چکے ہیں کہ ہمیں اپنے علاوہ کوئی اور نظر ہی نہیں آتا، اور اگر نظر آتا بھی ہے تو ہم ان کو بطور انسان قبول کیوں نہیں کرتے، آیا اس حوالے سے ہماری پاس علم کی کمی ہے یا کوئی اور وجہ ہے؟
امن، تعلیم اور مذہبی آزادی یہ تینوں چیزیں جس معاشرے میں موجود ہوں وہ معاشرہ ترقی کی نئی منزلوں کو چھوتا ہے، وہ قومیں خوشحال ہوتی ہیں اور ان معاشروں میں انسانیت صحیح معنوں میں پروان چڑھتی ہے۔
لیکن دوسری جانب اگر کسی معاشرے میں یہ موجود نہ ہو تو وہاں زندگی گزارنا مشکل ہو جاتا ہے، وہاں زندگی بے رنگ اور بے معنی ہو جاتی ہے اور سکون غائب ہو جاتا ہے، وہاں جرائم بڑھ جاتے ہیں اور انتہاپسندی عروج پہ ہوتی ہے۔
اگر دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں امن و امان کی صورتحال اس وقت سخت خراب ہے، کہیں دھماکے ہو رہے ہیں تو کہیں پہ کسی کو گولیوں سے چھلنی کیا جا رہا ہے۔ ایک طرف مہنگائی کا طوفان ہے تو دوسری طرف بدامنی کے سائے منڈلا رہے ہیں ایسے میں زندگی جیسے روٹھ گئی ہو ہم سے۔
ایک طرف ہمارے سروں پر دہشت گردی کے سائے منڈلا رہے ہیں تو دوسری جانب ہم اتنے انتہاپسند ہو چکے ہیں کہ خود ہی عدالت لگا کر کسی کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتے، اگر کوئی غلطی کرتا بھی ہے تو ہم کون ہوتے ہیں کسی کو سزا دینے والے؟ سزا اور جزا کا کام قانون اور عدالت کا ہے۔
لیکن بدقسمتی سے ہم لوگ اتنے انتہاپسند ہو چکے ہیں کہ ہمیں کچھ بھی نظر نہیں آتا بس اپنا آپ نظر آتا ہے، لوگوں کے ذہنوں میں موجود نفرت کو ختم کرنے کی ضرورت ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس جانب کوئی توجہ نہیں دے رہا۔
اگر دیکھا جائے تو میڈیا لوگوں کی ذہن سازی میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے، لوگ وہی کرتے ہیں جو ان کو میڈیا پہ دکھایا جاتا ہے لیکن میڈیا میں سیاست کے علاوہ کسی اور ٹاپک پہ بات ہی کہاں ہوتی ہے، دھرنا شروع ہو گیا، دھرنا ختم، امپورٹڈ حکومت، حکومت آئی حکومت گئی فلاں یہ کہہ رہا ہے تو فلاں یہ کہہ رہا ہے، امن کے حوالے سے کچھ مواد ہوتا ہی نہیں نہ ہی اس پہ رپورٹنگ ہوتی ہے، بس جہاں دھماکہ ہوتا ہے چند دن اس حوالے سے خبریں چلتی ہیں پھر اس طرح کے کسی اگلے سانحے تک خاموشی چھا جاتی ہے۔ یا ہم نئے دھماکے کا انتظار کرنے لگتے ہیں کہ کب دھماکہ ہو گا اور ہم اس کو کور کریں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم میڈیا میں ان موضوعات کو زیادہ سے زیادہ جگہ دیں، ایک دوسرے کو قبول کریں اور ایک دوسرے کو احترام دیں، اسی کی بدولت ہم انسانیت کے درجے پر فائز ہو سکتے ہیں اور ہمارا ملک امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔
ایک بات اور کہنا چاہوں گی کہ حصولِ امن کیلئے کوششوں میں ہر ایک فرد کو اپنا حصہ ڈالنا ہو گا، یہ صرف میڈیا کا کام بھی نہیں ہے کیونکہ امن کا قیام قوموں کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے اور اگر ہمیں آگے جانا ہے تو اس کے لیے امن بہت ضروری ہے۔ جب ہم سب امن کے لیے ایک ہو کر آواز اٹھائیں گے تو وہ دن دور نہیں جب ہماری دھرتی امن کا گہوارہ بن جائے گی۔