سائبر سیکورٹی کی خلاف ورزی صحافیوں کیلئے خطرات بڑھا دیتی ہے
ربیعہ ارشد ترکمان
دنیا میں کئی حکومتیں صحافیوں کی پرائیویسی کو مجروح کرتی ہیں جس میں صحافیوں کے فون ٹیپ کرنا، ان کی ای میلز، واٹس ایپ کو ہیک کرنا شامل ہے۔ کسی بھی تفتیشی کہانی کے دوران جب صحافی کسی موڑ پر ایسی خبر شائع کرنے کے قریب ہوتا ہے جس میں حکومت پر کڑی تنقید ہو تو ایسے میں انہیں اغوا، ان پر قاتلانہ حملہ یا ان کے خاندان کو دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
کچھ عرصہ قبل امریکی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے سابقہ ٹھیکیدار ایڈورڈ سنوڈن نے ایک پریس کانفرنس میں راز افشاء کیا تھا کہ اسرائیلی کمپنی کی پیگاگس نامی جاسوسی ایپ کی مدد سے صحافیوں پر نظر رکھی جاتی ہے۔
صحافی اسد علی طور کا ٹوئٹر اکاؤنٹ 2019 میں معطل کر دیا گیا، اس سے قبل حامد میر کا ٹوئٹر اکاؤنٹ 2015 میں ہیک کیا گیا تھا، عورت مارچ پر بات کرنے والی کئی خواتین صحافیوں کو آن لائن ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اسلام آباد میں سولہ جون 2019 کو ایک ڈیجیٹل صحافی، محمد بلال کے قتل پر ہیومن رائٹس کمیشن سندھ، وائس چیئرپرسن اسد اقبال بٹ نے ڈوئچے ویلے کے نمائندے سے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ”پاکستان میں آزادی اظہار کی گنجائش کم ہوتی جا رہی ہے، دراصل ایک اہم تقرری پر تنقید کرنے والی ایک ٹویٹ کے چند گھنٹے بعد اسے قتل کر دیا گیا جو اہم سوالات کو جنم دیتا ہے۔
سورس کی پرائیویسی رکھنا صحافی کا حق ہے لیکن سمارٹ فون یا فون ایپس کو ہائی جیک کر کے صحافی کے سورس کی باتیں عوام میں پھیلانا جیسا کہ مریم نواز اور عاصمہ شیرازی کے کیس میں فون ریکارڈنگز کے ذریعے کیا گیا، ڈان لیکس میں سرل المیڈا، صحافی احمد نورانی پر قاتلانہ حملہ اور ٹیپ سکینڈل وغیرہ میں ہر جگہ حکومتی سائبر جاسوسی کا عنصر شامل ہے، تحقیقاتی رپورٹر احمد نورانی ایک تحقیقاتی نیوز ویب سائٹ فیکٹ فوکس میں شریک بانی اور رپورٹر ہیں۔
فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ 2022 کے مطابق گزشتہ برس میں میڈیا پریکٹیشنرز کے خلاف کل 86 خلاف ورزیوں میں سے کم از کم 12 (%14) ڈیجیٹل میڈیا کے ساتھ کام کرنے والے صحافی تھے۔ ہلاک ہونے والے 4 صحافیوں میں سے 2 کو (%50)، 17 صحافیوں میں سے تین ڈیجیٹل صحافیوں کے خلاف کیسز بنائے یا گرفتار کیے گئے (%12)، 14 صحافیوں کو ہراساں کیا گیا (%14) اور 9 میں سے ایک ڈیجیٹل صحافی کے خلاف کوششوں میں سے قتل کی کوشش (%11)، واحد دستاویزی صحافی کے اغوا کی کوشش، 5 صحافیوں میں سے ایک ڈیجیٹل صحافی (%20) کے زخمی ہونے پر قانونی مقدمہ درج کیا گیا۔ 13 صحافیوں میں سے ایک ڈیجیٹل صحافی کیخلاف (%8) قانونی مقدمات درج ہوئے۔
’’ڈیجیٹل میڈیا کا منظرنامہ پاکستان میں ابھی نیا ہے اس لئے آن لائن آزادی کے حوالے سے ابھی کچھ حکومتی تحفظات بھی ہیں جن کی وجہ سے ڈیجیٹل صحافی ہراساں کیے جانے، بدسلوکی اور قانونی خطرات کا منظم ہدف ہیں۔‘‘ اقبال خٹک، فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے رپورٹر کو مزید بتاتے ہوئے کہا کہ ابھی تک مشاہدے میں یہ بات سامنے ضرور آئی ہے کہ جو لوگ وی پی این استعمال کرتے ہیں اور وہ آن لائن نگرانی کے ریڈار میں نہیں آتے تو ان کے لئے مشکل بنتی ہے، صحافی اس لئے بھی آن لائن ہراسگی اور نگرانی کا نشانہ بنتے ہیں کیونکہ صحافی کے پاس خصوصی معلومات، اقلیتی یا انسانی حقوق کے علمبرداروں یا ان کے مخافظوں کی لسٹ یا رابطہ نمبر یا رسائی یا مظلوم اور سورسز کی لسٹ کا ڈیٹا ہوتا ہے۔ صحافی کے حوالے سے حکومت اپنے بارے میں جاننے کیلئے متجسس رہتی ہے، حکومت باخبر رہنا چاہتی ہے کہ اگر صحافی کوئٹہ یا کسی علاقے میں جا رہے ہیں تو کس مقصد کیلئے جا رہے ہیں، صحافی کا خاصہ ہے کہ وہ مختلف لوگوں سے ملتے ہیں، ایسی جگہ جا سکتے ہیں جہاں طاقتور بھی نہیں جا سکتا، تنازعات والے علاقے میں غیرریاستی عناصر بھی ان کو متنازعہ علاقوں تک رسائی دیتے، انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے شکار اور ان کے مددگاروں کی تفصیلات کیلئے صحافی کی زیادہ ریکی اور نگرانی ہوتی ہے۔ دور جدید میں صحافی ٹیکنالوجی دوستی کے بغیر نہیں چل سکتا، اور ٹیکنالوجی حکومت کے ہاتھوں میں ایسا ٹول ہے جس سے وہ آپ کے فون یا لیپ ٹاپ سے باآسانی آپ کے بارے میں معلومات لے سکتے ہیں۔
آج کل اگر ڈیجیٹل تحفظ کو خطرہ ہو تو آپ کی جان کو بھی خطرہ لاحق ہو جاتا ہے، اب حکومت فزیکل نگرانی کی بجائے سمارٹ فون کے ذریعے نگرانی کرتی ہے، یہی حکومت کا پیغام رساں آلہ ہے، نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے دو لوگوں کے فون اور تکنیکی آلات تک باآسانی رسائی رکھ سکتی ہے، کچھ عرصہ قبل اسرائیلی ریاستی فرم نے پیگاسس نامی سافٹ وئیر کے ذریعے صحافی کے ڈیجیٹل آلات تک رسائی کا سافٹ وئیر بنا کر استعمال کیا۔ فریڈم نیٹ ورک، صحافتی حقوق اور ان کی خلاف ورزی کے حوالے سے مانیٹرنگ کرتا ہے’’ گو کہ ہم نے ڈیجیٹل تحفظ کا علیحدہ مرکز بنایا لیکن ابھی تک لوگ اتنے باخبر نہیں ہوئے کہ وہ اپنے مسائل یا خلاف ورزی کو رپورٹ کریں۔ ‘‘
جن لوگوں کو مرکزی دھارے کے میڈیا سے ہٹایا جاتا ہے وہ ڈیجیٹل میڈیا کا سہارا لیتے ہیں، ڈیجیٹل تحفظ کے بارے میں ہر فرد خصوصاً صحافی کا حساس ہونا بہت ضروری ہے، یہ نا سوچیں کہ کسی بند کمرے میں کوئی آپ کو سن یا دیکھ نہیں سکتا! فون کی وجہ سے ایسا کرنا ممکن ہے، جتنا آپ باخبر اور احتیاطی تدابیر اپنائیں گے، اتنا ہی محفوظ رہیں گے۔ اکثر میٹنگز میں لوگ ٹی وی یا کھانے کے وقفے میں اپنا فون اور لیپ ٹاپ میز پر بنا نگرانی چھوڑ جاتے ہیں، آج کل ایسے سافٹ وئیر آ چکے ہیں جن کی بدولت ایک یو ایس بی کے ذریعے آپ کا ضائع شدہ ڈیٹا بھی حاصل کیا جا سکتا ہے اس لئے آج کل ڈیجیٹل ہائی جین کے بارے میں باخبر رہنا بہت ضروری ہے۔
اقبال خٹک نے تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کو دشمن سمجھا جاتا ہے حالانکہ اس سوچ کو بدلنا چاہیے، انٹرنیٹ حکومت اور عوام کے درمیان بہترین ابلاغ کی سہولت فراہم کر سکتا ہے، عوام کو انٹرنیٹ کے فوائد اور نقصانات سے باخبر کر کے حکومت ترقی کیلئے عوامی حمایت بھی حاصل کر سکتی ہے اور باقی دنیا کی طرح باصلاحیت نوجوانوں کے ذریعے زرمبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔
شمائلہ خان، ڈائریکٹر ریسرچ اینڈ پالیسی، ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن نے کہا کہ صحافی خواتین کو زیادہ تر آن لائن ہراسگی، ٹرولنگ، ان کے کام کی شناخت، سماجی رابطہ سائٹس کی ہیکنگ، ٹوئٹر یا فیس بک بند ہونے اور دھمکیوں جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، زیادہ تر عوام ڈیجیٹل رائٹس کی آن لائن ہراسگی شکایت ہیلپ لائن تک پہنچ بھی نہیں پائے۔ ان کی تنظیم کی کوشش ہے کہ وہ تربیتی ورکشاپس کے ذریعے نقصان ہونے سے پہلے احتیاطی تدابیر کی معلومات اور تربیت کے ذریعے لوگوں کو بچا سکیں کیونکہ نقصان کے بعد ڈیجیٹل فُٹ پرنٹس رہ جاتے ہیں، اور ذہنی صحت اور معاشرتی تعلقات کی خرابی سے پہلے ہی بچاؤ کی تراکیب، ٹولز، پریکٹسز سیکھا دیے جائیں، اس کے علاوہ ان کا ادارہ آن لائن ہراسانی کے واقعات کو دستاویز بھی کرتا ہے تاکہ ممکنہ نتائج یا معاشرے پر اثرات کو جانچا جا سکے اور اس تحقیق کی روشنی میں اس مسئلے کی نشاندہی اور اس کے ممکنہ حل کے ساتھ وکالت کی جا سکے۔ متاثرین کو قانونی مدد کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل اور ذہنی تحفظ کی مدد بھی فراہم کی جاتی ہے۔
ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی آن لائن ہراسانی شکایات موصول کرنے والی ہیلپ لائن کی سالانہ رپورٹ 2021 کے مطابق مین ہیلپ لائن، ہیلپ ڈیسک ای میل اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے 4310 نئے کیسز (جنرل یا مجموعی) موصول ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق اوسطاً 370 کیسز ماہانہ جبکہ مارچ سے ستمبر کے دوران ان کی اوسط تعداد 712 کیسز تک پہنچ گئی۔شکایات کو ہر صنف نے درج کرایا جن میں اڑسٹھ فیصد خواتین (3045) تھیں، 13.5 فیصد لوگوں نے مظلوم کیلئے شکایت درج کرائی جبکہ صرف ایک فیصد سے کم اقلیتی صنف نے ہیلپ لائن سے رجوع کیا۔ عمر کی حد میں 69 فیصد میں 18 سے 30 سال کی عمر کے درمیان لوگوں میں سے اندازتاً 78 فیصد خواتین تھیں۔
پاکستانی تناظر میں، 2021 کے ہیلپ لائن ڈیٹا کے مطابق اوسطاً مردوں کی جانب سے جعلی پروفائلز اور ہیکنگ کی کوششوں کے کیسز رپورٹ کیے گئے جبکہ خواتین کو بلیک میلنگ اور غیررضامندی سے زیادہ نشانہ بنانا، ان کی ذاتی معلومات کا استعمال، ان کی تصاویر (تقسیم اور ترمیم شدہ)، ویڈیوز اور فون نمبرز، جو انہیں کافی زیادہ کمزور بناتا ہے تاہم جعلی پروفائلز اور ہیک شدہ اکاؤنٹس کے ساتھ بھی خواتین کی شکایات کافی موصول ہوئیں جن میں شدید جذباتی طور پر متاثر ہونے اور ان کی ساکھ خراب ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ عام طور پر جب خواتین اپنی آن لائن موجودگی کا کنٹرول کھو دیتی ہیں تو ان کے پاس مردوں کے مقابلے میں کھونے کیلئے بہت کچھ ہوتا ہے۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والی نواحدی، (فرضی نام) فلم اور ڈاکیومنٹری میکر پروڈکشن کے نام سے اپنا میڈیا ہاؤس چلا رہی ہیں، انہوں نے بتایا کہ ان کا پرانا آفیشل سوشل میڈیا کا ایک اکاؤنٹ ہیک کیا گیاتھا جو ان کے سارے کام کی تفصیلات رکھتا تھا جس کی وجہ سے ان کو کام اور فالوور شپ (پیروی کرنے والے) بھی ملتی تھی لیکن وہاں سے ان کی تصویر کسی نے اٹھا کر اپنی ویب سائٹ بنا کر ان کے کام کو شوکیس کیا تھا جس کی انہوں نے شکایت بھی کی مگر کچھ حاصل نہیں ہوا۔
مس احدی کے مطابق وہ جب بھی کوئی پراجیکٹ کر رہی ہوتی ہیں تو انہیں اکثر بغیر نمبر کے کالز رات کے مختلف پہر میں آتیں جن میں زیادہ تر انہیں زچ کرنے کیلئے ایک ہی بات کی کئی بار تفصیلات پوچھی جاتیں، مگر اب وہ اس کی بھی عادی ہو چکی ہیں۔
مس نور نے ڈیجیٹل رائٹس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ایک واقعہ شیئر کیا جس میں پیشہ وارانہ فرائض ادا کرتے ہوئے ایک ادارے نے انہیں بلیوٹوتھ سے اپنا شناختی کارڈ بھجوانے پر زور دیا لیکن وہاں انہیں ڈیجیٹل رائٹس سے لی گئی تربیتی ورکشاپس کی معلومات نے بچا لیا اور انہوں نے آف لائن شیئر کرنے پر راضی کر لیا کیونکہ بلیوٹوتھ سے فون تک رسائی اور جاسوسی ایپ ڈالنا آسان ہو جاتا ہے۔
فری لانس صحافی زینب اور ان کی صحافی دوست (تحفظ کے مدنظر نام شامل نہیں کیا گیا) جو عورت مارچ یا عورتوں کے حقوق کے حوالے سے رپورٹس کرتی ہیں، ان کو ہر کہانی کے بعد آن لائن پلیٹ فارمز پر ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ایسی مسلسل صورتحال میں آن لائن اغوا، ریپ کی دھمکیوں کی وجہ سے اکثر وہ بازار یا عوامی مقامات پر چوکنا رہتی ہیں کہ شاید جس شخص نے آن لائن دھمکی دی تھی وہ کہیں آس پاس موجود نہ ہو، یا وہ نامعلوم ان کی اگلی کہانی کی تحقیق کے دوران انہیں نقصان نہ پہنچا دے، وہ ایسے خوف کا مسلسل شکار رہتی ہیں، ”کچھ برس پہلے جب میری ڈیجیٹل سیکیورٹی کی خلاف ورزی ہوئی تھی تو مجھے دو سال لگ گئے اس معاملے سے نکلنے میں، اور مجھے اپنی فیملی کی مدد حاصل کرنا پڑی، فیملی تک بات جانے سے اب مجھے اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا ہوتا ہے۔”
متنازعہ علاقہ کے صحافی ارمغان (فرضی نام) جو یوٹیوب کے ذریعے اپنے علاقے کی خبریں دیتے تھے اور مقامی مقبولیت کے باعث مقامی اشتہارت ان کی آمدن کا ذریعہ تھے، ان کے چینل کو ہیک کر کے انہیں پیشہ وارانہ، معاشی اور ذہنی دھچکا دیا گیا۔
اوپر دیئے گئے صحافیوں کے علاوہ (مزید دس صحافی مرد و خاتون) نے یہ اعتراف کیا کہ سائبر جرائم میں آن لائن ہراسانی اور ٹرولنگ، آن لائن سپیس سے نکل کر حقیقی زندگی میں بھی صحافیوں کے ذہنی تحفظ کو پامال کرتی ہے، آن لائن دھمکیاں ملنے کے بعد صحافی سیلف سنسرشپ اختیار کر لیتے ہیں، کئی اس فیلڈ کو اسی وجہ سے چھوڑ چکے ہیں، آن لائن ہراسانی کی اقسام میں ٹرولنگ، اسٹاکنگ، بُل انگ، امپرسونیٹنگ یعنی فیک فیس بک شناختی تصویر بنانا، پھر اس پر غلط مواد شیئر کر کے صحافتی اعتماد کو خراب کرنا، واٹس ایپ اور ای میل ہیکنگ کے واقعات معمول کی بات بن چکے ہیں۔
بہت سے ڈیجیٹل صحافی پیشہ وارانہ فرائض کے باوجود اپنی جگہ یا چیک اِن کی تفصیلات کو بند یا محدود سامعین کیلئے نشر کرتے ہیں، اس کے علاوہ متنازعہ معلومات کی تحقیق کے دوران غیرسائبر ڈیجیٹل فون کا استعمال کیا جاتا ہے۔ آن لائن دھمکیاں دینے والے اکثر فزیکلی بھی گھروں یا کام کی جگہ تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔
بین الاقوامی سینٹر برائے صحافی (آئی سی ایف جے) کی دو ہزار بیس میں ہونے والی سروے رپورٹ کے مطابق: آن لائن دھمکیوں کے حوالے سے کیے گئے سروے میں شامل 714 خواتین میں سے صرف سات کو مشاورت، صحت یابی کیلئے کام سے چھٹی یا جسمانی تحفظ کی پیشکش کی گئی، اور صرف 21 فیصد کو کسی بھی قسم کی ڈیجیٹل سیکیورٹی سپورٹ دی گئی، دس فیصد نے کہا کہ ان کے آجروں نے کچھ نہیں کیا۔
سروے کے 10 فیصد شرکاء نے کہا کہ انہیں کہا گیا تھا کہ ”سخت ہو جائیں” یا ”ایک موٹی جلد چڑھا لیں۔”
سروے کے جواب دہندگان میں سے چودہ خواتین اور متعدد انٹرویو لینے والوں نے کہا کہ ان کے آجروں نے ان سے پوچھا کہ انھوں نے حملہ آوروں کو اکسانے کیلئے کیا حرکت کی تھی۔
رپورٹ میں ابلاغی کمرے کے رہنماؤں کیلئے 26 سفارشات شامل کی گئیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں؛
صنفی آن لائن تشدد کے معاملات کا جواب دیتے وقت ”شکار صحافی پر الزام لگانے” اور تقریر کی پابندیوں سے گریز کریں، یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ ہدف (صحافی) بدسلوکی، ایذا رسانی یا دھمکیوں کا ذمہ دار نہیں ہے اور یہ کہنا کہ ”ٹرولوں کو انفارمیشن یا جواب نہ دیں” مناسب ردعمل نہیں ہے۔
ادارے میں اس بات کو یقینی بنائیں کہ سوشل میڈیا کے استعمال پر پالیسیاں ‘دو طرفہ سڑک’ کی نمائندگی کرتی ہیں، جب کوئی آن لائن حملہ آور ہو تو صحافی کے پیشہ ورانہ برتاؤ کی ذمہ داریاں اس کی حمایت اور دفاع کے عزم کے ساتھ موجود ہوں۔
آن لائن تشدد (بُل انگ) کی نگرانی کیلئے دیگر میڈیا تنظیموں، پیشہ ورانہ انجمنوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کریں، خطرے کی تشخیص کے مضبوط مربوط ماڈلز بنائیں، بحالی کے ماڈلز کا جائزہ لیں اور صنعت کے معیاری رہنما خطوط، حمایتی نظام، اور تربیتی مواقع بنائیں۔
حکومتیں باضابطہ طور پر تسلیم کرتی ہیں کہ صحافیوں پر آن لائن تشدد آزادی اظہار (بشمول پریس کی آزادی) پر حملہ ہے، اور یہ کہ خواتین اور پسماندہ صحافیوں پر اس کا غیرمتناسب اثر پڑتا ہے۔
ڈیجیٹل دور میں جہاں اب آن لائن اخبار، میگزین، یوٹیوب چینلز، انفرادی یا اجتماعی گروہی برانڈڈ نیوز آؤٹ لیٹس اور برانڈڈ صحافی سامنے آ رہے ہیں ایسے میں سائبر سپیس میں صحافیوں کو محفوظ بنانے کیلئے حفاظتی تربیتی ورکشاپس کے ذریعے سگنل جیسی ابلاغی ایپس سے متعارف کروایا جا سکتا ہے، جن کا ڈیٹا لینا مشکل ہے۔
مزید صحافیوں کو ای میلز ہیکنگ سے بچنے کیلئے لمبے، عجیب حروف اور مضبوط پاسورڈ سکھانے اور جاسوسی سے نبٹنے یا معلومات کو محفوظ رکھنے کیلئےڈیٹا اینکرپشن کا طریقہ سکھا کر قدرے محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔
سیف باکس (SafeBox Network) کو مغربی دنیا میں ورلڈ پریس فریڈم ڈے گلوبل کانفرنس 2022 میں متعارف کروایا گیا ہے۔اس کا استعمال پوری دنیا کے صحافیوں کو سکھانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ صحافی محفوظ سائبر سپیس میں اپنے صحافتی پیشہ وارانہ امور کو ایمانداری اور جانی تحفظ کی فکر سے آزاد ہو کر پورا کر سکیں۔