ہالووین مناتے عرب اور بشریٰ بی بی کا برقعہ
حمیرا علیم
سوشل میڈیا پر کچھ تصاویر وائرل ہیں جن میں عرب ہالوین منا رہے ہیں۔ ان تصاویر پر کمنٹس پڑھ کر ہنسی بھی آئی اور خوشی بھی ہوئی۔ خوشی اس لیے کہ اکثریت اس بات سے واقف ہے کہ یہ غیراسلامی تہوار ہے اور مسلمانوں کو اسے منانا نہیں چاہیے۔ اور ہنسی اس لیے آئی کہ لوگ عربوں کو کوس رہے تھے کہ انہوں نے سرزمین عرب کو امریکہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور وہ غیرمذاہب کے تہوار منا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اگر ہم اپنے گریبان میں جھانکیں تو یقین مانیے ایسے کمنٹس لکھنے سے پہلے ہزار بار سوچیں گے۔
پاکستان بھی اسلامی جمہوریہ ہے مگر ہمارے ہاں ہر حرام رائج ہے اور ہم اسے حرام بھی نہیں مانتے۔ ہمارے سیاستدان، امراء، اداکار اور نودولتیے بھی دیوالی، ہولی، کرسمس اور ہالوین اتنے جوش و خروش سے مناتے ہیں کہ ان مذاہب کے ماننے والے بھی شاید ایسے نہ مناتے ہوں گے۔ ایسی ہی ایک پارٹی میں اداکار یاور اقبال نے گھٹیاپن کی انتہا کر دی جب اس نے ہالووین کاسٹیوم کے طور پر سابقہ خاتون اول بشری بی بی کے برقعے کو چنا۔ دوران پارٹی اس کے دوست اسے بشری بی بی کہہ کر بلاتے رہے۔ یہ کسی خاتون کی نہیں بلکہ مبینہ طور پر شعائر اللہ کی بے حرمتی اور گستاخی ہے۔
کیا ہم بھی اتنے ہی مسلمان نہیں ہیں جتنے کہ عرب ہیں؟ کیا صرف عربوں ہی پر فرض ہے کہ وہ قرآن و سنت پر عمل کریں، اور ہمارے لیے سب جائز ہے؟
ہالووین دو الفاظ کا مجموعہ ہے؛ ہالو "Hallow” کا مطلب ہے کسی چیز کو مقدس بنا کے اختیار کرنا اور Evening شام، یعنی کہ "مقدس شام!”
ہالووین عیسائیوں کا ایک تہوار ہے جو 31 اکتوبر کو منایا جاتا ہے۔ اس تہوار کا آغاز سلٹیک لوگوں سے ہوا جو کہ آئرلینڈ کے رہنے والے تھے۔ وہاں ٹھنڈ بہت زیادہ ہوتی تھی اور نومبر میں بہت برف باری ہوتی تھی تو ان کے بہت سے لوگ مر جاتے تھے، بہت سا جانی اور مالی نقصان ہوتا تھا۔ اس پر ان کا عقیدہ یہ تھا کہ جو لوگ مر جاتے ہیں وہ دوسری دنیا میں جا کر یا تو خدا بن جاتے ہیں یا پھر بھوت۔ اور نومبر میں ہماری اور ان کی دنیا کے درمیان موجود دروازہ کھل جاتا ہے اور ہماری دنیا میں آ کر ہمیں مارتے ہیں، خون خرابہ کرتے ہیں۔ تو اس سے بچاؤ کے لیے انھوں نے یہ حل نکالا کہ اکتوبر کی آخری رات آگ جلائیں اور سب اس کے گرد جمع رہیں اور طرح طرح کے خوفناک ماسک اور کاسٹیوم پہن لیں تاکہ وہ بدروحیں ہمیں پہچان نا سکیں یا وہ ہمیں اپنے جیسا سمجھ کے چھوڑ دیں یا پھر ہم سے ڈر جائیں۔ اس وقت اس تہوار کا نام Samhain festival تھا۔
بعد میں رومن بادشاہ نے اس میں اپنا سیاسی اور مذہبی فائدہ دیکھ کے اس میں مزید چیزیں شامل کیں اور ہوتے ہوتے آج یہ ہالووین فیسٹول کے نام سے جانا جاتا ہے۔
کیا ایک مسلمان یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ مرنے والوں کی روحیں زمین پر ہی بھٹکتی رہتی ہیں؟ اگر ہاں تو یقیناً اس کا عقیدہ آخرت پر ایمان نہیں۔ اور اگر نہیں تو پھر وہ کیسے ہالووین منا سکتا ہے؟ کیا ایک مسلمان شیطان سے خوفزدہ ہو سکتا ہے جبکہ اسے قرآن و حدیث میں شیطان سے بچنے کے کئی طریقے بتائیے گئے ہیں۔ تعوذ تو ہے ہی شیطان سے بچنے کی دعا۔ صبح شام کے مسنون اذکار تمام شیاطین اور مصائب سے بچاؤ کے لیے ڈھال ہیں۔
ایک صحابی کو ٹھوکر لگی تو انھوں نے کہا کہ شیطان نے مجھے ٹھوکر لگا دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے یہ کہہ کر شیطان کو طاقتور بنا دیا، وہ تو بہت خوش ہوا ہے تمہاری اس بات سے۔ تم نے بسم اللہ کیوں نہیں کہا۔ اگر کسی کو ڈر ہے تو اسے آیت الکرسی کی تلاوت کرنی چاہیے جس کے بارے میں خود شیطان نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ اگر وہ اسے پڑھ لیں تو شیطان ان سے دور رہے گا۔
وہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے صدقہ فطر کی حفاظت پر مقرر فرمایا۔ پھر ایک شخص آیا اور دونوں ہاتھوں سے (کھجوریں) سمیٹنے لگا۔ میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کروں گا۔ اس نے کہا میں غریب شخص ہوں مجھے جانے دیجئے۔ تین دن تک لگاتار وہ آتا رہا تیسرے دن آپ نے کہا میں تمہیں ضرور نبیﷺ کے پاس لے جاؤں گا۔ اس پر اس نے کہا کہ مجھے جانے دو میں تمہیں کچھ ایسے کلمات سکھاؤں گا جو تمہیں فائدہ دیں گے۔ جب تم رات کو اپنے بستر پر سونے کے لیے جاؤ تو آیت الکرسی پڑھ لیا کرو پھر صبح تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری حفاظت کرنے والا ایک فرشتہ مقرر ہو جائے گا اور شیطان تمہارے پاس بھی نہ آ سکے گا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات آپؐ سے بیان کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے تمہیں یہ ٹھیک بات بتائی ہے اگرچہ وہ بڑا جھوٹا ہے وہ شیطان تھا۔” (بخاری 5982)
لوگوں کو جب کسی غیراسلامی تہوار منانے سے روکا جائے تو ان کا موقف ہوتا ہے کہ کسی کی خوشی میں خوش ہونے میں کیا برائی ہے، ہم ان کے ہم مذہب تو نہیں بن جائیں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غیرمسلموں کے ساتھ اچھے برتاؤ کا حکم دیا ہے۔ آپ کو نہیں منانا، نہ منائیں دوسروں کو کیوں روکتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔
تو جناب کسی بھی غیراسلامی تہوار کو منا کر آپ اسی مذہب کی پیروی کر رہے ہوتے ہیں۔ نبیﷺ نے فرمایا تھا: "جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے۔”
نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غیرمسلموں کے ساتھ اچھا برتاؤ ضرور کیا مگر کبھی ان کی پوجا میں حصہ لے کر خیرسگالی کا پیغام دیا نہ ہی ان کے تہوار منا کر ان سے اظہار یکجہتی کیا۔ ‘میری کرسمس’ کہنے کا مطلب ہے آپ نے مان لیا کہ عیسی علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں۔ نعوذباللہ! دیوالی منا کر آپ نے مان لیا کہ ہندو مذہب برحق ہے۔ ہالووین منا کر آپ نے شیطان کو طاقتور مان لیا۔ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تو اللہ تعالٰی نے امت وسط یعنی مسلمانوں پر فرض کیا ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا: "برائی کو دیکھو تو ہاتھ سے روکنے کی کوشش کرو۔ اگر ایسا نہ کر سکو تو زبان سے روکو اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتے ہو تو دل میں برا جانو۔”
پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک مسلمان دوسرے کو برائی کرتے دیکھے اور روکے نہ؟
آج ہی ڈئنیل حقیقت جو کی ایک پوسٹ پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ میری ویڈیوز میں مرر کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ میں بائیں ہاتھ سے کھا رہا ہوں۔ جب میں کمنٹس پڑھتا ہوں تو مجھے غصہ آتا ہے کہ لوگ یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ دائیں ہاتھ سے کھانا ہے۔ پھر میرے ذہن میں آیا کہ یہی تو اسلام کا حسن ہے کہ مسلمان دوسرے مسلمان کو برائی کرتے دیکھ کر ٹوکتا ہے اور اسے اچھائی کی ترغیب دیتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو اسے صدیوں سے ایک امت بنائے ہوئی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں تلقین کی تھی تو ایک کشتی کی مثال بیان کی تھی کہ اس میں کچھ لوگ اوپر ہوں گے اور کچھ لوگ نیچے۔ اور اگر نیچے والے لوگ چاہیں کہ ہم کشتی میں نیچے سے سوراخ کر لیں اور ادھر سے پانی لینا شروع کر دیں تو ڈوبیں گے تو سب ہی، کیا اوپر والے اور کیا نیچے والے۔
یہی حال امت مسلمہ کا ہے اگر ہم ایک دوسرے کو نہیں روکیں گے تو تباہ ہم سب ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے دین اسلام کو چن لیا اور خود ہی بتا دیا کہ آج ہم نے تمہارے لیے دین کو مکمل کر دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسلام کی ایک ایک چیز کو کھول کھول کر بیان فرما دیا۔ جب اللہ اور اس کے رسول نے فرما دیا کہ مسلمانوں کے لیے تہوار دو ہی ہیں؛ عید الفطر اور عید الاضحی، تو پھر ہم کون ہوتے ہیں دین میں اضافہ کرنے والے۔
خوشی منائیے مگر اسلام کی حدود میں رہ کر۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا: "شرک کے ستر دروازے ہیں اور شرک اندھیری رات میں سیاہ پتھر پر چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ مخفی ہے۔” (الجامع 3540)