صحت

"ڈوگرہ ہسپتال دس منٹ کے فاصلے پر لیکن علاج کیلئے پشاور جانا پڑتا ہے”

شاہ نواز آفریدی

”رمضان المبارک میں رات کو جب میرے سینے میں درد زیادہ ہو گیا تو مجھے ایمبولینس کے ذریعے ڈوگرہ ہسپتال لے جایا گیا، مجھ پر دل کا یہ درد آپریشن کے بعد پہلی مرتبہ آیا، جب میں ہسپتال پہنچا تو وہاں کوئی بھی ایسی سہولت میسر نہیں تھی کہ جس سے میرے مجھے فوری طبی امداد مل سکے اور میری تکلیف میں کمی آئے”، یہ باتیں قلب کے  عارضے میں مبتلا عالم گودر سے تعلق رکھنے والے 68 سالہ حاجی شمس الحق نے کیں۔

ان کے مطابق ڈوگرہ ہسپتال میں سہولیات کی بہت کمی ہے یہاں تک کہ رات کے وقت ایمرجنسی کی صورت میں ایک انجکشن تک میسر نہیں ہوتی، ”ہسپتال سے زیادہ سہولت تو مجھے ریسکیو 1122 کی ایمبولینس میں ملی جس میں مجھے ہسپتال پہنچایا گیا۔”

حاجی شمس الحق نے بتایا، ”میں پچھلے پانچ سالوں سے دل کی بیماری میں مبتلا ہوں اور دل کا آپریشن کر چکا ہوں مگر مجھے ڈوگرہ ہسپتال میں علاج اور دیگر چیک آپ کی مکمل سہولیات میسر نہیں اسی وجہ علاج اور چیک اپ کی اگر ضرورت ہو تو پشاور جانا پڑتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ڈوگرہ ہسپتال میں نہ آئی سی یو ہے اور نہ ہی دل کا مخصوص سی سی یو وارڈ اور نہ ہی دیگر متعلقہ سہولیات موجود ہیں۔

حاجی شمس الحق

ٹی این این کے ساتھ ایک نشست میں حاجی شمس نے بتایا کہ مجھ سے پہلے میری شریکِ حیات کو بھی ایمرجنسی میں ڈوگرہ ہسپتال لے جایا گیا مگر دو دفعہ وہاں جانے کے بعد بھی اس کی بیماری کی تشخیص نہ ہو سکی جس کے بعد مجبوراً پشاور کے بڑے ہسپتال میں علاج کروانا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ ڈوگرہ ہسپتال ہمارے گھر سے گاڑی میں دس منٹ تک کے فاصلے پر ہے مگر سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ہم دس کلومیٹر سے زائد تک کا سفر طے کر کے پشاور کے ہسپتالوں میں علاج کرنے پر مجبور ہیں۔

باڑہ قبیلہ سپاہ سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن تراب علی نے ٹی این این کو بتایا کہ باڑہ کئی برس تک بدامنی کا شکار رہا، امن کی بحالی کے بعد بہت سے لوگ واپس آ گئے جس سے آبادی میں بہت اضافہ ہوا۔ ان کے مطابق زیادہ آبادی کے باوجود کئی سالوں بعد بھی ڈوگرہ ہسپتال کی اپگریڈیشن نہیں ہوئی جس کی وجہ سے تحصیل باڑہ و تیراہ کے چھوٹے بڑے سینکڑوں دیہاتوں کی پانچ لاکھ سے زائد آبادی اور سو کلومیٹر سے زائد دور واقع علاقوں میں رہائش پذیر لوگ صحت کی سہولیات سے محروم ہیں۔

تراب علی نے بتایا کہ کئی گھنٹوں سفر کرنے کے بعد بیشتر مریض ڈوگرہ ہسپتال کے سامنے سے گزر کر پشاور جانے پر مجبور ہیں اور بالخصوص رات کے وقت ایمرجنسی میں مریضوں کو بہت تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحصیل باڑہ میں میدانی باڑہ اور اپر باڑہ کے علاقوں، جن میں مختلف قبیلے ملک دین خیل، سپاہ، بر قمبر خیل، شلوبر، اکاخیل، کمر خیل، ذخہ خیل، اور ستوری خیل سمیت کوکی خیل شامل ہیں، کے علاوہ باہر سے باڑہ کے ساتھ ملحقہ شیخان، سنگو، اچینی سمیت اورکزئی اور دیگر لوگ بھی ڈوگرہ ہسپتال آتے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین ہوتی ہیں کیونکہ اس ہسپتال میں بچوں اور حاملہ خواتین کے لئے احساس نشونما پروگرام سمیت دیگر ٹیکہ جات کے پروگرامات بھی ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق ڈوگرہ ہسپتال کی اپگریڈیشن نہایت ضروری ہے کیونکہ علاج معالجے کے ساتھ ساتھ ہسپتال انچارج کے اختیارات بھی اس کے ساتھ زیادہ ہو جائیں گے جس سے وہ ہسپتال کے سٹاف سمیت دیگر امور کے بارے فیصلہ کرنے میں اختیار مند ہو گا۔

ڈپٹی ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر ایوب آفریدی نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ذاتی طور پر ڈوگرہ ہسپتال کی اپگریڈیشن کے لئے بہت کوشش کی ہے، 13 ایکڑ زمین پر قائم اس ہسپتال کی بلڈنگ بہت کشادہ ہے اور یہ ٹیچنگ ہسپتال کے لئے بھی موضوع ہے۔ ان کے مطابق سب سے پہلے 1964 میں یہ سول ڈسپنسری بنی تھی، پھر 1970 میں بیسک ہیلتھ یونٹ میں اپگریڈ ہوئی، 1976 میں اسے سول ہسپتال کا درجہ دیا گیا جبکہ 1994 میں اس کو تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال کا درجہ ملا۔

محکمہ صحت کے ذرائع کے مطابق 2003 میں اس کو ٹائپ "ڈی” کیٹیگری میں شمار کیا گیا جس کے بعد اب تک 19 سالوں میں اس کی اپگریڈیشن نہیں ہوئی۔

2017 کی مردم شُماری رپورٹ کے مطابق تحصیل باڑہ کی آبادی 444000 سے زائد نفوس پر مشتمل ہے جبکہ محکمہ صحت خیبر کے ایک ذرائع نے بتایا کہ باڑہ کی آبادی اب چھ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے لیکن اس کے باوجود بھی ڈوگرہ ہسپتال کی اپگریڈیشن نہیں کی جا سکی۔ محکمہ صحت کے ذرائع کے مطابق 50 ہزار تک آبادی کے لئے ٹائپ "ڈی” ہسپتال جبکہ ایک لاکھ تک کی آبادی کے لئے ٹائپ "سی” ہسپتال ہوتا ہے جہاں قریب کوئی دوسرا بڑا ہسپتال نہ ہو۔

ڈوگرہ ہسپتال کے انچارج ڈاکٹر عالمگیر کے مطابق ہسپتال میں چار سپیشیلٹیز ہیں جن میں جنرل سرجری، پیڈز یعنی چلڈرن، گائنی اور جنرل میڈیسن شامل ہیں، ”ماہانہ او پی ڈی کے مطابق 11 ہزار تا 13 ہزار مریض ہسپتال آتے ہیں، ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت اور علاقے کے مختلف مخیر افراد کی مدد سے ہسپتال میں کئی کام کئے۔ ہسپتال میں ان چار سپیشیلٹیز کے علاوہ جِلد، دانتوں اور نفسیات کے لئے بھی ڈاکٹرز ہیں کیونکہ یہاں مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا مریض بڑی تعداد میں آتے ہیں۔ انچارج کے مطابق اب ہسپتال میں کچھ آپریشنز بھی ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے مریضوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔

باڑہ کے رہائشی 33 سالہ کاشف نے ٹی این این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی بیوی رات 12 بجے کے قریب گیس لیکج کی وجہ سے جل گئی جس کو فوری طور پر پشاور میں برن سنٹر میں لے کر گئے۔ انہوں نے کہا کہ ڈوگرہ ہسپتال کوئی تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے مگر ہمیں پہلے ہی پتہ ہے کہ یہاں پر سہولت نہ ہونے کی وجہ سے وقت ضائع کئے بغیر پشاور جانا بہتر ہو گا، رات کے وقت تو ڈوگرہ ہسپتال میں گیٹ سے گزرنے سے لے کر ڈاکٹر اور دیگر عملے کی موجودگی تک بھی بہت وقت لگتا ہے کہ کون کہاں ہے اور کس کی ڈیوٹی ہو گی اسی لئے بروقت علاج کے لئے ہم ایمرجنسی میں پشاور جاتے ہیں۔

ممبر صوبائی اسمبلی و ڈیڈک چیئرمین خیبر محمد شفیق آفریدی نے ٹی این این کو رابطے پر بتایا کہ ڈوگرہ ہسپتال کو ٹائپ "ڈی” کیٹیگری سے اپگریڈیشن کے لئے ہم نے تحریری طور مطالبہ کیا جس کے بعد وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کے ساتھ میٹنگ میں سیکرٹری ہیلتھ نے کہا کہ اس ہسپتال میں ماہانہ او پی ڈی نہیں ہے جو اپگریڈیشن کے لئے موضوع نہیں ہے، ”وزیر اعلی کو بتایا کہ باڑہ سے ماہانہ بہت زیادہ مریض پشاور میں حیات آباد میڈیکل کمپلیکس، خیبر ٹیچنگ ہسپتال اور لیڈی ریڈنگ ہسپتال آتے ہیں اور اب بھی ہمارے اتنے مریض یہاں ہیں کہ ٹائپ”اے” کیٹیگری ہسپتال کے لئے کافی ہیں جو کہ 110 بیڈز سے زیادہ بنتے ہیں، اس کے بعد میں وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا کو ڈوگرہ ہسپتال لے کر گیا جہاں انہوں نے ٹائپ "ڈی” کیٹیگری سے ماوراء گائنی میں سرجن ڈاکٹرز تعینات کئے، مختلف ایکویپمنٹس اور دیگر سہولیات دیں جس کی وجہ سے او پی ڈی زیادہ ہونے لگی۔

ایم پی اے کے مطابق گزشتہ سال ہسپتال کی اپگریڈیشن کا سروے ہو چکا ہے جس میں کیٹیگری "سی” کے لئے فزیبل ہو چکا ہےجو کہ ٹیبل ہو چکا ہے اور "سی” کیٹیگری میں آنے کے بعد اس کی تمام سپیشیلٹیز ڈبل ہو جائیں گی۔

محمد شفیق آفریدی نے امید ظاہر کی کہ قریب ہے کہ یہ ہسپتال ٹائپ ڈی سے ٹائپ سی میں تبدیل ہو جائے گا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button