ارشد شریف قتل: سلمان اقبال کو واپس لا کر شامل تفتیش کرنا چاہیے۔ پاک فوج
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ ہم کمزور ہو سکتے ہیں، ہم سے غلطی ہو سکتی ہے لیکن ہم غدار، سازشی یا قاتل نہیں ہو سکتے، سائفر اور ارشد شریف کے حوالے سے جڑے واقعات کی تہہ تک پہنچنا ضروری ہے تاکہ قوم سچ جان سکے۔
ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کے ہمراہ اہم پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پریس کانفرنس کا مقصد ارشد شریف کی وفات اور اس سے جڑے حالات و واقعات سے متعلق ہے۔
لیفٹننٹ جنل بابر افتخار نے کہا کہ ارشد شریف پاکستان کی صحافت کا آئیکون تھے، وہ ایک فوجی کے بیٹے، ایک شہید کے بھائی تھے، دکھ تکلیف کی اس گھڑی میں ہم سب ان کے لواحقین کے ساتھ برابر کے شریک ہیں، افسوس ناک واقعے نے پوری قوم کو رنج و غم میں مبتلا کر دیا ہے، ارشد شریف کی موت کے بعد لوگوں نے رخ فوج کی طرف موڑنا شروع کر دیا، اس سے کون فائدہ اٹھا رہا ہے یہ دیکھنا بہت ضروری ہے، تمام کرداروں کو سامنے لا کر حقائق قوم کے سامنے رکھنے چاہئیں، حتمی رپورٹ سامنے آنے تک کسی پر الزام تراشی کسی صورت مناسب نہ ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے آرمی چیف پر بھی الزامات لگائے گئے، جھوٹے بیانیے کے ذریعے معاشرے میں غیرمعمولی اضطراب کی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، ارشد شریف ملک چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے، سلمان اقبال نے چیف ایگزیکٹو عماد یوسف کو ہدایت کی کہ ارشد شریف کو جلد از جلد ملک سے باہر بھیج دیا جائے، ارشد شریف کو دبئی بھیجنے کا انتظام اے آر وائی کی جانب سے کیا گیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ارشد شریف کو سیکیورٹی تھریٹ وزیراعلی خیبر پختونخوا کی خصوصی ہدایت پر جاری کیا گیا، تھریٹ الرٹ کا مقصد ارشد شریف کو باہر جانے پر مجبور کرنا تھا، بار بار انہیں باور کرایا جاتا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ لاحق ہے، وقار احمد اور خرم احمد کون تھے، کیا ارشد شریف انہیں جانتے تھے، کچھ لوگوں نے ارشد شریف سے لندن میں ملاقات کے دعوے کیے، کیا یہ دعوے بھی فیک نیوز اور ڈس انفارمیشن کا حصہ تھے۔
لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کے مطابق اس کیس میں بہت سے سوالات جواب طلب ہیں، افسوس ناک واقعے کی شفاف اور غیرجانبدار تحقیقات ضروری ہیں، ہم نے حکومت سے اعلیٰ سطح تحقیقات کی درخواست کی ہے، عالمی اداروں کی ضرورت ہو تو انہیں بھی شامل کرنا چاہیے، اے آر وائی نیوز نے اداروں کیخلاف رجیم چینج کا مخصوص ایجنڈا پروان چڑھایا، ارشد شریف کی موت پرجھوٹا بیانیہ بنایا گیا، لوگوں کو گمراہ کیا گیا، ارشد شریف کے قتل کے سلسلے میں سلمان اقبال کو واپس لا کر انہیں شامل تفتیش کرنا چاہیے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے سوال اٹھائے کہ ارشد شریف سے رابطہ میں رہنے والے لوگ کون تھے اور کس نے ارشد شریف کا ان سے رابطہ کروایا؟ یو اے ای میں ان کے قیام و طعام کا انتظام کون کر رہا تھا، کون انہیں یقین دلا رہا تھا، کس نے انہیں کینیا جانے کا کہا کیوں کہ مزید 34 ممالک ہیں جہاں پاکستانیوں کے لیے ویزہ فری انٹری ہے، ارشد شریف کو کس نے ملک چھوڑنے پر مجبور کیا تھا؟ ان کی موت کی خبر سب سے پہلے کس نے اور کیسے دی یہ بھی دیکھنا ہو گا؟ انکوائری رپورٹ کا انتظار کرنا چاہیے اور جب تک رپورٹ نہیں آ جاتی تب تک الزام تراشی سے گریز کرنا چاہیے۔
لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ سائفر سے متعلق کئی حقائق منظرعام پر آ گئے ہیں، پاکستانی سفیر کو سیاسی مقاصد کیلیے استعمال کیا گیا، 27 مارچ کو جلسے میں کاغذ کا ٹکڑا لہرایا گیا، بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا۔
انہوں نے بتایا کہ آئی ایس آئی کی سائفر سے متعلق فائنڈنگز عوام کے سامنے رکھنا چاہتے تھے مگر اُس وقت کی حکومت نے ایسا نہ کرنے دیا، ہم حقائق سامنے لانا چاہتے تھے لیکن معاملہ حکومت پر چھوڑ دیا، آرمی چیف نے 11 مارچ کو وزیراعظم سے سائفر سے متعلق ذکر کیا تھا، سابق وزیراعظم نے سائفر پر کہا کوئی بڑی بات نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی کو سائفر سے متعلق کسی سازش کے شواہد نہیں ملے، لیکن ارشد شریف اور بہت سے ان جیسے صحافیوں کو رجیم چینج کا بیانیہ فیڈ کیا گیا، شہباز گل نے اے آر وائی پر فوج میں بغاوت پر اکسانے کا بیان دیا، اے آر وائی چینل نے پاک فوج اور اس کی قیادت کے خلاف جھوٹے اور سازشی بیانیے کو فروغ دیا، پاکستانی اداروں بالخصوص فوج کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا، ذہن سازی سے قوم میں افواج پاکستان کیخلاف نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، نیوٹرل اور جانور جیسے الفاظ سے بات چیت کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ لفظ نیوٹرل کو گالی بنا دیا گیا ہے، ہمارے شہدا کا مذاق بنایا گیا، اس کے باوجود آرمی چیف نے انتہائی صبر اور تحمل سے کام لیا، سائفر کا بہانہ بنا کر افواج پاکستان کی تضحیک کی گئی، غیرآئینی کام سے انکار کرنے پر میر جعفر اور میر صادق کے القاب دیئے گئے، سیاست سے باہر نکلنے کا فیصلہ آرمی چیف سمیت پورے ادارے کا تھا، پچھلے سال اور مارچ سے بہت دباؤ ڈالا گیا، پاکستانی اداروں کو دنیا میں بدنام کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی، پاکستان آرمی سے سیاسی مداخلت کی توقع کی گئی جو آئین کے خلاف تھی۔
انہوں نے کہا کہ 35، 35 سال کی خدمات کے بعد کوئی غداری کا ٹائٹل لے کر گھر نہیں جانا چاہتا، اداروں پر اعتماد رکھیں، اگر ماضی میں کچھ غلطیاں ہوئی ہیں تو پچھلے 20 سال سے ہم اپنے خون سے منہ دھو رہے ہیں، فوج عوام کے بغیر کچھ نہیں ہے، ہم کبھی انسٹی ٹیوشن کے طور پر قوم کو مایوس نہیں کریں گے، یہ ہمارا وعدہ ہے، ہم کمزور ہو سکتے ہیں، ہم سے غلطی ہو سکتی ہے لیکن ہم غدار، سازشی یا قاتل نہیں ہو سکتے۔
ارشد شریف کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں تھا۔ ڈی جی آئی ایس آئی
ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کیلئے سابقہ حکومت نے آرمی چیف کو غیرمعینہ مدت تک توسیع کا کہا تھا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس آئی کا کہنا تھا کہ میری واضح پالیسی ہے کہ میری تشہیر نہ کی جائے، آج میں اپنی ذات کے لیے نہیں اپنے ادارے کے لیے آیا ہوں، میرے ادارے کے جوانوں پر جھوٹی تہمتیں لگائی گئیں اس لیے آیا ہوں، جھوٹ سے فتنہ و فساد کا خطرہ ہو تو سچ کا چپ رہنا نہیں بنتا، میں اپنے ادارے، جوانوں اور شہدا کا دفاع کرنے کے لیے سچ بولوں گا۔
انہوں نے کہا کہ ارشد شریف یہاں تھے تو ان کا ادارے سے رابطہ بھی تھا، جب وہ باہر گئے تب بھی انہوں نے رابطہ رکھا، ارشد شریف واپس آنے کی خواہش رکھتے تھے، ان کی زندگی کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں تھا جبکہ پی حکومت نے تھریٹ الرٹ جاری کیا تو ہماری تحقیق کے مطابق ایسا کچھ نہیں تھا۔
لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا کہ ہمارے شہیدوں کا مذاق بنایا گیا، اس میں دو رائے نہیں کہ کسی کو میر جعفر، میر صادق کہنے کی مذمت کرنی چاہیے، بغیر شواہد کے الزامات کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔
ڈی جی آئی ایس آئی کا کہنا تھا کہ نیوٹرل اور جانور کہنا اس لیے نہیں کہ ہم نے کوئی غداری نہیں کی ہے، یہ سب اس لیے کہا جا رہا ہے کیونکہ ہم نے غیرقانونی کام سے انکار کیا ہے، غیرقانونی کام سے انکار فرد واحد یا صرف آرمی چیف کا فیصلہ نہیں پورے ادارے کا تھا۔
لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے مزید کہا کہ بالخصوص اس سال مارچ سے ہم پر بہت پریشر ہے، ہم نے فیصلہ کیا ہوا ہے خود کو آئینی کردار تک محدود رکھنا ہے، جنرل باجوہ چاہتے تو اپنے آخری چھ سات مہینے سکون سے گزار سکتے تھے لیکن جنرل باجوہ نے فیصلہ ملک اور ادارے کےحق میں کیا، جنرل باجوہ اور ان کے بچوں پر غلیظ تنقید کی گئی۔
ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کے لیے آرمی چیف کو ان کی مدت ملازمت میں غیرمعینہ مدت توسیع کی پیشکش کی گئی، آرمی چیف نے مدت ملازمت میں توسیع کی پیشکش کو ٹھکرا دیا، یہ ایک بہت پرکشش پیش کش تھی، اُس وقت جو حکومت وقت تھی جو توسیع کو قانونی طور پر دینے کے مجاز تھے انہوں نے یہ پیشکش دی، اس وقت یہ پیشکش اس لیے کی گئی کہ تحریک عدم اعتماد اپنے عروج پر تھی، اگر آپ کا سپہ سالار غدار ہے تو ماضی قریب میں ان کی تعریفوں کے پل کیوں باندھتے تھے، اگر آپ کی نظر میں سپہ سالا غدار ہے تو اس کی ملازمت میں توسیع کیوں دینا چاہتے تھے، اگر آپ کا سپہ سالار غدار ہے تو آج بھی چھپ کر اس سے کیوں ملتے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا کہ ہمارا محاسبہ ضرور کریں لیکن پیمانہ رکھیں کہ میں ملک کے لیے درست کام کر رہا ہوں یا نہیں، مارچ 2021 کے بعد کسی الیکشن میں فوج یا آئی ایس آئی کی مداخلت کا ثبوت ہے تو لائیں۔
انہوں نے کہا کہ جب ڈی جی آئی ایس آئی بنا تو مجھ سے پوچھا گیا کہ پاکستان کا نمبر ایک مسئلہ کیا ہے، میں نے کہا معاشی مسائل، جس نے مجھ سے پوچھا تھا اس کے نزدیک پاکستان کا نمبر ایک مسئلہ حزب اختلاف تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو بیرونی خطرات یا عدم تحفظ سے خطرہ نہیں ہے، پاکستان کا دفاع اس لیے مضبوط ہے کہ اس کی ذمہ داری 22 کروڑ عوام نے لی ہے، جب آپ نفرت اور تقسیم کی سیاست کرتے ہیں تو اس سے ملک میں عدم استحکام آتا ہے، پاکستان نفرت کی وجہ سے دو ٹکڑے ہوا۔
ڈی جی آئی ایس آئی کے مطابق ادارے کے غیرسیاسی رہنے پر بہت دن بحث ہوئی پھر یہ فیصلہ کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے آئین میں ایک حق احتجاج کرنے کا بھی ہے، ہمیں کسی کے احتجاج، لانگ مارچ یا دھرنے پر اعتراض نہیں، جب زیادہ لوگ اکٹھے ہوں تو خطرہ ہوتا ہے، ہمارا فرض ہے کہ ہم سکیورٹی دیں، ہم باتیں نہیں کرتے کام کرتے ہیں، میرے ادارے اور ایجنسی کا کسی جماعت کے ساتھ عناد نہیں، جس جماعت کی آپ نے بات کی اس میں میرے ذاتی دوست دیگر جماعتوں سے زیادہ ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کا کہنا تھا کہ جتنی بھی میٹنگز ہوئیں ہمارا مشورہ اور بیانیہ یہی تھا کہ آپ کو جو کرنا ہے آئین کے تحت کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اداروں کے خلاف بات ہوئی تو وزیراعظم اور دیگر وزرا نے مذمت کی، یہ نہیں کہوں گا کہ حکومت دانستہ خاموش ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس آئی نے پاکستان کے صحافی بہت خطرات کے باوجود اپنا کام بہت اچھا کر رہے ہیں، صحافیوں کو لفافہ کہنے کے خلاف ہوں، کوئی صحافی ایسا نہیں جسے میں بحیثیت ڈی جی آئی ایس آئی لفافہ کہہ سکوں۔