سیلاب: سب کو امداد مل گئی، قلی کو کسی نے نہ پوچھا!
محمد بلال یاسر
پاکستان ریلوے کا جال تمام ملک میں پھیلا ہوا ہے؛ مختلف روٹس کی مختلف ریلوے لائنیں ہیں؛ تقریباً سب ہی ریلوے لائن براڈ گیج ہیں جبکہ ریلوے ہی پاکستان میں سفر کا ایک سستا اور آسان ذریعہ بھی ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق آزادی کے وقت ہماری ریلوے لائن کی کل لمبائی 8561 کلومیٹر سے زیادہ تھی جو اب وہ گھٹ کر 7791 کلومیٹر سے کچھ زیادہ رہ گئی ہے، اور متعدد جگہوں پر لائنیں بند کر دی گئی ہیں۔
حالیہ سیلاب اور بارشوں نے ملک میں تباہی مچائی ہے، ملک میں حالیہ بارشوں کے دوران پلوں اور سڑکوں کو نقصان پہنچنے کے ساتھ پاکستان ریلوے کو بھی بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ ریلوے حکام کی ایک رپورٹ کے مطابق ریلوے پلوں، سگنلز سسٹم، ریلوے ٹریک اور ریلوے سٹیشنوں پر سیلابی پانی آنے سے کراچی، کوئٹہ اور سکھر ڈویژن کا دیگر ڈویژن کے درمیان ٹرین آپریشن بند ہو گیا ہے، مسافروں کو ٹکٹوں کے یسے ری فنڈ کرنے اور مال بردار ٹرینیں رک جانے سے گزشتہ 25 دن میں مالی خسارہ بڑھتا جا رہا ہے، گریڈ 17 سے 21 تک کے افسران کے ٹی اے ڈی اے بھی بند، شعبہ میکینکل میں بچت کرتے ہوئے ٹرین آپریشن کیلئے استعمال نہ ہونے والے انجنوں سے ڈیزل نکال کر برانچ لائنوں کے انجنوں کیلئے استعمال میں لایا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے ایڈ یشنل جنرل منیجر ریلوے انفراسٹرکچر نے بتایا کہ متعدد شعبوں کے ملازمین کو تنخواہ نہیں مل سکی، بلاوجہ اخراجات نہیں کئے جا رہے، ٹرین آپریشن بحال نہ ہوا تو آئنده ماه تنخواہ کی ادائیگی مزید مشکل ہو جائے گی؛ لاہور، کراچی، سکھر اور کوئٹہ کے درمیان ٹرین آپریشن بحال نہیں ہو جاتا تو ریلوے کو ریونیو ملنا مشکل ہو جائے گا، کوئٹہ ڈویژن میں ٹوٹنے والے دو بڑے اور ایک چھوٹے ریلوے پل دوبارہ سے بنانے کیلئے این ایل سی کی خدمات حاصل کی گئی ہیں جو ریلوے انجینئرز کے ساتھ مل کر آئندہ دو ماہ میں 35 کروڑ روپے کی لاگت سے ان پلوں کو تعمیر اور بحال کرے گی۔
گزشتہ دنوں وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے دورہ کوئٹہ کے موقع پر ٹرین آپریشن بند ہونے کی وجہ سے مالی مشکلات کا شکار قلیوں کو نقد امداد دیتے ہوئے 400 قلیوں میں دس ہزار فی کس تقسیم کیے، ادائیگی اخوت فاؤنڈیشن و خواجہ رفیق شہید فاؤنڈیشن کی طرف سے ہوئی، جس میں ریلوے افسران کی ایک روزہ تنخواہ بھی شامل ہے۔
قلیوں کی حالت زار
ریلوے آپریشن بند ہونے سے سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں سٹیشنوں کے قلی بھی بے روزگار ہوئے۔ گزشتہ کئی روز سے حیدرآباد ریلوے سٹیشن پر قلی اور ریلوے سٹیشنوں پر کام کرنے والے مزدور اپنے مطالبات کیلئے دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔ فیروز لاشاری، عبداللہ اور دیگر قلی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ سیلاب کے بعد سے اب تک ٹرین سروس بحال نہیں ہو سکی جس کے بعد ہمارے گھر کے چولہے بند اور ہمارے گھروں میں فاقے پڑ چکے ہیں۔
انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ حکومت ہر طبقے کو مدد اور تعاون کے طور پر کچھ نہ کچھ دے رہی ہے مگر ہمیں اب تک کچھ نہیں ملا جس کے باعث ہم بھیک مانگنے پر مجبور ہو چکے ہیں، اگر حکومت ہمارے ساتھ تعاون نہیں کر سکتی تو کم از کم ٹرین سروس جلد سے جلد بحال کرا دے تاکہ ہماری روزی روٹی پھر سے چل سکے۔
ٹرین کے مسافر کہاں جائیں؟
روزگار کے سلسلے میں کوئٹہ میں رہائش پذیر مصور خان سال میں کئی بار فیملی کے ہمراہ بذریعہ ٹرین پشاور آتے جاتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ سیلاب کے بعد ایک قریبی رشتہ دار کی فوتگی پر پشاور فیملی کے ہمراہ آنا تھا مگر دیگر املاک کی طرح ان کی یہ آرزو بھی سیلاب میں بہہ چکی کیونکہ سیلاب نے ریلوے ٹریک کو تباہ و برباد کردیا ہے۔
مصور خان کے مطابق ریلوے ان کے لیے آسان اور سستا زریعہ سفر تھا مگر وہ بھی سیلاب کی نذر ہو گیا اور معلوم نہیں کہ اب یہ کب بحال ہو گا۔