قرضہ بہت نوکری ندارد، باپ نے دو بیٹیوں کو قتل کر کے خودکشی کر لی
حمیرا علیم
کل پرسوں ایک فیس بک گروپ میں ایک خبر کے متعلق پڑھا کہ فیصل آباد کے شہری میاں عتیق الرحمن نے اپنی دو بیٹیوں کو قتل کرنے کے بعد خودکشی کر لی اور ایک نوٹ لکھا کہ وہ قرض اور نوکری نہ ہونے کی وجہ سے یہ قدم اٹھا رہے ہیں۔ ان کے محلے داروں کا کہنا تھا کہ میاں صاحب سفید پوش وضعدار آدمی تھے کبھی کسی سے اپنے مسائل کا ذکر نہیں کیا ورنہ وہ ضرور ان کی مدد کرتے۔
یہ پڑھ کر افسوس تو ہوا مگر میں جب بھی ایسی کوئی خبر سنتی ہوں تو بہت سے سوالات ذہن میں اٹھتے ہیں۔ کیا حالات کی خرابی، نوکری، گھر، خوراک کا نہ ہونا، میاں بیوی اور سسرال سے ناچاقی، ڈپریشن یا بیماری، کسی شخص کا نہ ملنا ایسے مسائل ہیں جن کی وجہ سے اپنی جان جیسی قیمتی چیز خود اپنے ہاتھوں سے گنوا دی جائے یا اپنے بچوں جیسے قیمتی سرمائے اور نعمت کو بلی کا بکرا بنا دیا جائے؟ میرا مقصد صرف تنقید نہیں بلکہ تصویر کے دوسرے رخ کو دکھانا بھی ہے۔
اگر کوئی بھی شخص ان مسائل کا شکار ہے تو یاد رکھیے اللہ تعالٰی نے قرآن میں خود بتا دیا ہے: "اور ہم ضرور تمہیں ڈر، بھوک، مالوں اور جان اور کھیت کی کمی سے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوش خبری سنا دو۔” (البقرہ 155) آپ واحد انسان نہیں ہیں کہ جس پہ مصیبت آئی ہے، انبیاء پہ بھی مشکلات آئی تھیں۔ دنیا میں ہر انسان کسی نہ کسی امتحان سے گزر رہا ہے۔ اس لیے جب بھی کوئی بیماری، غم، تکلیف آئے یا نقصان ہو سب سے پہلے۔یہ دعا پڑھیے: "اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ اَللّٰھُمَّ أْجُرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاخْلُفْ لِیْ خَیْرًا مِنْھَا” (احمد 2717) "بیشک ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ اے اللہ! مجھے میری مصیبت کا اجر دے اور اس کے عوض اچھا بدل عطا فرما۔” پھر دو نفل ادا کیجئے اور رب سے مدد مانگیے۔ مشکل پھر بھی برقرار رہے تو تہجد کا اہتمام کیجئے۔
اور جان بچانے کے لیے تو حرام بھی جائز ہو جاتا ہے۔ "تم پہ حرام کیا گیا مردار، خون اور سؤر کا گوشت، اور غیر اللہ کے نام پہ کیا گیا ( ذبیحہ اور قربانی ) پس جو مجبور ہو جائے اور حد سے بڑھنے والا نہ ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ بیشک اللہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔” (البقرہ 173)
اگر آپ کے پاس نوکری نہیں یا کھانے کو نہیں تو کسی بھی دسترخوان، مزار سے کھانا لے لیجئے۔ ہزاروں ٹرسٹس، خیراتی ادارے ایسے ہیں جو نہ صرف کھانا، کپڑے اور دوسری ضروریات زندگی فراہم کرتے ہیں بلکہ آپ کو مالی طور پر مستحکم کرنے کے لیے سلائی مشین، رکشے، ریڑھیاں اور بلاسود قرضے بھی مہیا کرتے ہیں، ان سے رجوع کیجئے۔ اگر آپ بچے پیدا تو کر سکتے ہیں مگر انہیں پال نہیں سکتے تو انہیں قتل کرنے، بیچنے کی بجائے ایدھی سینٹر اور اس جیسے اور اداروں، یتیم خانوں، ایس او ایس ویلجز میں چھوڑ دیجئے۔
مگر خدارا دنیا کے وقتی مسائل سے فرار حاصل کرنے کے لیے خودکشی کا راستہ مت اختیار کیجئے۔ کیونکہ دنیاوی مسائل کی تو کوئی حد ہوتی ہے، ایک وقت مقرر ہوتا ہے اس کے بعد ان کو ختم ہونا ہی ہوتا ہے کیونکہ خود پروردگار عالم نے فرمایا ہے: "تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔” (الم نشرح 5)
جب کہ خودکشی یا قتل کر کے تو آپ اپنے لیے مستقل جہنم خرید لیتے ہیں۔ دنیا کے وقتی مصائب تو آپ سے برداشت نہیں ہوتے پھر اخروی مستقل عذاب کیسے برداشت کریں گے؟
اگر کوئی مرد یا عورت اس شرمندگی سے بچنے کے لیے خودکشی کر لیتا ہے کہ وہ آنے خاندان کی کفالت نہیں کر سکتا تو یہ بھی خودغرض اور بزدلی کی انتہا ہے کہ آپ اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑوا کر سکھی ہو جائیں، جو کہ آپ کی غلط فہمی ہے۔ جب کہ آپ کے والدین، بہن بھائی، بیوی بچے مسائل کے بوجھ تلے دبے رہیں۔ مسائل کا سامنا کرنا سیکھیے اگر اپنے بس میں نہ ہو تو اللہ تعالٰی اور لوگوں کی مدد مانگیے۔ مگر ہمت نہ ہارئیے۔