سیاست

ایک سال بعد: افغان طالبان کو آج بھی اندرونی و بیرونی مشکلات کا سامنا

عبدالستار

پندرہ اگست کو افغانستان میں طالبان کی حکومت کو ایک سال پورا ہوا لیکن ابھی تک دنیا کے کسی ملک نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔

قطر معاہدے کے تحت نیٹو اور امریکی افواج کے انخلاء کے بعد طالبان جنگجوؤں کو پورے ملک میں کوئی خاص مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور طالبان کابل شہر تک پہینچ گئے ، افغان سابق صدر اشرف غنی کے ملک سے باہر جانے کے بعد  پندرہ اگست 2021 کو پوری دنیا کے لئے یہ ایک بڑی خبر تھی کہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں افغان طالبان داخل ہو گئے اورحکومت سنبھال لی جس پر امریکہ سمیت دنیا کے دیگر ممالک نے تشویش کا اظہار کیا۔

اس حوالے سے سینئر صحافی اور تجزیہ نگار ہارون الرشید جو خود دوحہ معاہدے کی تقریب میں شریک تھے، انہوں نے کہا کہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان دوحہ معاہدہ میں سب سے بڑی بات یہ تھی کہ افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی اور شدت پسند تنظیموں کو افغانستان میں ختم کرنا ہو گا لیکن حال ہی میں القاعدہ کے رہنما ایمن لاظواہری کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد امریکہ نے طالبان پر الزام لگایا ہے کہ دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی ہے جبکہ القاعدہ کے رہنماء کی موجودگی سے افغان طالبان انکار کر رہے ہیں اور امریکیوں پر الزام لگا رہے ہیں کہ انہوں نے دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔

ہارون الرشید نے کہا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو ایک سال پورا ہونے پر بھی لڑکیوں کی چھٹی جماعت سے لے کر سکول اور یونیورسٹی جانے پر پابندی ہے جس کی وجہ سے امریکہ کے افغان طالبان کے ساتھ اختلافات چل رہے ہیں، اس طرح معاملات سے دونوں ممالک کے درمیان اختلافات مزید بڑھیں گے اور لگ رہا ہے کہ کابل میں القاعدہ کے رہنما پر ڈرون حملہ اس کا آغاز ہے۔

افغانستان کے حکومتی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سال پہلی مرتبہ ملک کے اپنے وسائل سے بجٹ تیار کیا گیا جبکہ جنگ کے دوران روزانہ سو کے قریب لوگ ہلاک ہوتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہو رہا کیونکہ ملک میں امن قائم ہو چکا ہے۔

افغانستان میں اس وقت سب سے بڑی مشکل ملک کی معاشی بدحالی ہے کیونکہ افغانستان کی حکومت کے ساتھ دنیا کے دوسرے ممالک کے بینکاری نظام پر پابندی عائد ہے۔ سابق افغان حکومت کو امریکہ کی جانب سے مالی امداد دی جاتی تھی لیکن طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد امریکہ میں افغانستان کے نو ارب ڈالر بھی منجمد کر دیئے گئے۔

سینئر صحافی اور افغان امور کے ماہر طاہر خان نے ٹی این این کو بتایا کہ افغانستان میں طالبان حکومت کو ایک سال پورا ہونے پر اب بھی اندرونی اور بیرونی مشکلات کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ طالبان دارالحکومت کابل پر فوجی طاقت کے زریعے قابض ہوئے اور حکومت سیاسی یا مذاکرات کی بنیاد پر نہیں لی، ان کی دلیل تھی کہ سابق صدر نے ملک چھوڑ دیا تھا اور ایک خلا تھا اس لئے وہ کابل میں داخل ہوئے اور حکومت سنبھال لی۔

طاہر خان نے کہا کہ ابھی تک کسی ملک نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا جس کی وجہ سے افغانستان اقتصادی مسائل کا شکار ہے کیونکہ اس سے پہلے افغانستان کی معیشت جنگ پر انحصار کرتی تھی اور پیسے باہر ممالک سے آتے تھے اب وہ پیسے نہیں آ رہے اور طالبان کے ساتھ اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ یہ نظام چلائیں۔

”طالبان حکومت کا یہ ایک سال میڈیا اور صحافیوں کے لئے بھی مشکل تھا”، انہوں نے کہا افغان ترجمان تو اس بات سے انکاری ہیں کہ ان کی جانب سے میڈیا پر قدغن ہیں لیکن افغانستان سے صحافیوں کی اکثریت ملک چھوڑ کر چلی گئی ہے، بینکاری نظام پر پابندی کی وجہ سے معاشی بدحالی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کا روزگار بھی متاثر ہو چکا ہے۔

طاہر خان نے کہا کہ طالبان سے یہ بھی دنیا کے ممالک کا مطالبہ ہے کہ حکومت میں دیگر فریقین کو بھی شامل کیا جائے جس کے لئے طالبان راضی نہیں ہیں، عبوری حکومت کے ایک سال بعد بھی لڑکیوں کے مڈل اور ہائی کلاسز شروع نہیں ہو سکے جس کی وجہ طالبان وسائل اور اساتذہ کی کمی بتا رہے ہیں، لڑکیوں پر تعلیم کی پابندی سے ملک کی ترقی میں بھی ایک رکاوٹ ہے، افغان حکومت کی پڑوسی ممالک کے ساتھ سرحدوں پر بھی کئی مرتبہ جھڑپیں ہوئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں طالبان حکومت کو مستقبل میں مشکلات کا سامنا ہو گا ان کے لئے اکیلے حکومت چلانا مشکل ہو گا اگر اقتصادی حالات اس طرح رہے تو مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا، ”طالبان کو چاہئے کہ مستقبل میں باقی لوگوں کو بھی حکومت میں شراکت دار بنایا جائے تاکہ لوگوں کو اطمینان آ جائے، شمالی علاقوں میں مزاحمت کا بھی سامنا کر رہے ہیں، پہلے بھی لوگ ملک سے جا چکے ہیں اور مزید باہر جا رہے ہیں۔”

افغانستان کے معاملات پر کئی عرصے سے رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافی مشتاق یوسفزئی نے کہا کہ دوحہ میں طالبان کا دفتر کھولنے سے لے کر دوحہ معاہدے تک حالات پر نظر رہی، مجھے نہیں لگ رہا تھا کہ امریکہ اتنی آسانی کے ساتھ افغانستان کو چھوڑ کر چلا جائے گا اور اشرف غنی حکومت چھوڑ دیں گے کیونکہ افغانستان کی تاریخ دیکھ لیں تو کسی نے اتنی آسانی کے ساتھ کرسی نہیں چھوڑی، خون بہتا ہے اور جنگ ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں سمجھ رہا تھا کہ جب امریکہ چاہے کہ افغانستان میں جنگ نہ ہو تو جنگ بند ہو جائے گی اور بالکل اس طرح ہی ہوا کیونکہ امریکی فوج کی موجودگی میں چند دنوں میں بغیر کسی خونریزی اور مزاحمت کے افغان طالبان نے ملک پر قبضہ کیا جو اس صدی کی ایک بڑی ڈویپلمنٹ ہے۔

مشاق یوسفزئی نے کہا کہ کہ طالبان کی حکومت کا ایک سال پورا ہوا جس کی ٹرانزیشن جاری ہے اور طالبان بھی اس کو عبوری یا عارضی حکومت کہتے ہیں، ”ان کو حکومت میں اب بھی مشکلات ہیں اس کے باوجود طالبان کے امیر شیخ ہیبت اللہ اخونزادہ نے عام معافی کا اعلان کیا لیکن ٹارگٹ کلنگ شروع ہوئی اور سابق ملازمین اور فوج کے اہلکاروں پر تشدد کے رپورٹ آ رہے تھے جس کے بعد طالبان کے امیر نے دوبارہ بیان جاری کیا اور کہا کہ اس کے بعد جس نے بھی عام معافی کی خلاف ورزی کی تو غیراسلامی فعل تصور ہو گا۔

مشتاق یوسفزئی نے کہا کہ اگر طالبان کے درمیان اختلافات پیدا نہ ہوئے اور ملک کے اندر تقرریاں میرٹ پر کی گئیں اور اہم عہدوں پر اہل لوگوں کو لگایا گیا، طالب ہونا اور داڑھی رکھنا لازمی شرط نہ ہو تو تب طالبان آگے جا سکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں القاعدہ، ازبک، چائنیز اور پاکستانی طالبان موجود ہونے کے باجود کسی ملک نے یہ گلہ نہیں کیا، افغانستان کی سرزمین ان کے خلاف استعمال ہوئی ہو یا وہاں پر کوئی منصوبہ بندی کی گئی، یہ طالبان کی کامیابی ہے جبکہ کئی ممالک ایسے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کمزور ہو۔

مشتاق یوسفزئی سمجھتے ہیں کہ افغان حکومت کو مستقبل میں جو چیلنجز درپیش ہیں ان میں ایک معیشت کا مسئلہ اور دوسرا اندرونی سیکورٹی تھریٹ جو داعش کی شکل میں موجود ہے، ان پر قابو پانا ہو گا۔

قطر میں افغان طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان فروری 2022 کو ایک تقریب میں معاہدے پر دستخط ہوئے تھے جس میں امریکی اور نیٹو افواج کا افغانستان سے انخلا، افغانستان میں حکومت سازی کا طریقہ کار اور خواتین کے حقوق کو یقینی بنانا وغیرہ جیسے نکات شامل  تھے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button