ماحولیات کا عالمی دن، خیبر پختونخوا کے سلگتے جنگلات اور سات سالہ ایمرجنسی
رفاقت اللہ رزڑوال
خیبر پختونخوا میں 6 مقامات پر جنگلات میں آگ بھڑک اُٹھی ہے جس سے مجموعی طور پر تین خواتین اور ایک مرد جاں بحق جبکہ چند افراد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔
ضلع سوات کے محکمہ جنگلات کے حکام کے مطابق کبل کے دیولئی، دردیال، سیگرام، ابالا اور چارباغ کے کوٹ اور پٹانی کے جنگلات آگ کی لپیٹ میں ہیں جبکہ شانگلہ کے علاقہ چکیسر میں لگنے والی آگ سے آبادی متاثر ہوئی ہے اور یہیں پر اموات واقع ہوئی ہیں۔
خیبر پختونخوا میں جنگلات پر آگ لگنے کے واقعات ایسے حال میں سامنے آئے ہیں جہاں پر پوری دنیا میں 5 جون کو ماحولیات کا عالمی دن منایا جا رہا ہے جس کا مقصد ماحولیات کا تحفظ کرنا ہے۔
امسال ماحولیات کے تحفظ کیلئے اقوام متحدہ نے اپنا موضوع ‘واحد کرہ ارض’ رکھا ہے جس کا مطلب زمین کو صاف، سرسبز رکھنے کے ساتھ قدرتی ماحول کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنا اور اس کے لئے ضروری پالیسیاں مرتب کرنا اور موثر اقدامات اُٹھانا ہے۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں ضلع سوات کے محکمہ جنگلات کے ڈویژنل آفیسر محمد وسیم نے بتایا کہ متاثرہ علاقوں اور جنگلات میں ریسکیو 1122، آرمی، سول ڈیفنس کے رضاکار اور پولیس امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
محمد وسیم نے بتایا کہ وہ اس وقت پٹانی میں موجود ہیں اور یہاں درخت آگ سے محفوظ ہیں لیکن جنگلات میں گھاس پھونس کو نقصان پہنچا ہے اور ریسیکیو عملہ آگ بجھانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
جنگلات میں آگ بھڑک اُٹھنے کی وجوہات کے بارے میں فارسٹ آفیسر محمد وسیم نے بتایا کہ یا تو سیاح جنگلات میں کھانا پکانے کے بعد آگ کو پوری طرح نہیں بجھاتے یا کچھ لوگ اپنے ذاتی جنگلات میں قصداً گھاس پھونس کو آگ لگا دیتے ہیں تاکہ اس سے بننے والی راکھ نئی اُگنے والی گھاس کیلئے بطور یوریا کام آ سکے۔
محمد وسیم کے مطابق "یوریا حاصل کرنے کی غرض سے گھاس کو آگ لگانا بری بات نہیں ہے لیکن بدقسمتی سے یہی لوگ آگ کے متعلق فنی مہارت سے بے خبر ہوتے ہیں اور یہ ان سے بے قابو ہو کر پورے جنگل اور ماحول کو نقصان پہنچاتی ہے جو نہیں ہونا چاہئے۔”
انہوں نے کہا کہ 15 مئی سے 15 جون تک جنگلات پر آگ لگنے کے مزید واقعات ہو سکتے ہیں کیونکہ اس دوران گرمی کی شدت میں اضافہ ہو گا اور گھاس پھوس کیلئے چھوٹی سی چنگاری بھی بڑے نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔
گزشتہ ماہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی سرحد پر واقع ضلع شیرانی کے جنگل کوہ سلیمانی کے درختوں پر بھی آگ لگی تھی جس سے تقریباً 60 مربع کلومیٹر پر کھڑے چلغوزے، زیتون اور دیار کے درخت جل کر خاکستر ہو گئے تھے۔
جنگلات پر آگ لگنے سے ماحول پر کون سے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
گزشتہ سال اقوام متحدہ کے زیراہتمام عالمی یوم ماحولیات کی میزبانی پاکستان نے کی تھی جس کا مقصد پاکستان میں ماحولیات کے متعلق مسائل، موسمی تبدیلی اور اس کے منفی اثرات پر قابو پانا تھا لیکن حکومت کی جانب سے ماحولیات کی بہتری کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کو ماہرین ناکافی سمجھتے ہیں۔
اسلام آباد میں ماحولیاتی مسائل پر تحقیق کرنے والے صحافی سید حسنین رضا ماحولیاتی تبدیلیوں کو بین الاقوامی مسئلہ سمجھتے ہوئے کہتے ہیں کہ گزشتہ سال بین الاقوامی ماحولیاتی تبدیلی کی رینکنگ میں پاکستان پانچویں نمبر پر تھا جبکہ اس سال ایک درجہ گر کر چھٹے نمبر پر ہو گیا ہے۔
سید حسنین کہتے ہیں "ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بین الاقوامی کانفرنس کے بعد پاکستان کی رینکنگ میں بہتری آتی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پر ماحولیات کی بہتری کیلئے ان تمام عوامل پر کام نہیں کیا جاتا جن کی ضرورت ہے۔”
انہوں نے بلین ٹری سونامی پروجیکٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ماحول کو بہتر بنانے کا یہ صرف ایک عنصر ہے جو ناکافی ہے، ان کے مطابق جب درخت کی عمر دس سال تک پہنچ جائے تو وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنا شروع کر دیتے ہیں تو آپ اندازہ لگائیں کہ دس سال بعد صنعتوں، گاڑیوں اور آبادی کی تعداد کیا ہو گی؟
حسنین رضا کہتے ہیں "تیل سے چلنے والی گاڑیوں اور گرم ماحول سے بچنے کیلئے ہمیں کوئی متبادل نظام ڈھونڈنا پڑے گا جس میں عوامی ٹرانسپورٹ کے استعمال، پیدل چلنے اور انسانی صحت بخش سرگرمیوں کو فروغ دینا پڑے گا اور اس کے لئے سات سال کے لئے ایمرجنسی نافذ کرنا ہو گی ورنہ مستقبل میں نقصان ہو گا۔”
خیبر پختونخوا میں ماحولیاتی تبدیلیوں پر کام کرنے والے صحافی محمد داؤد خان صوبے کے جنگلات پر آگ لگنے کو تشویشناک قرار دے رہے ہیں۔ کہتے ہیں صرف یہ نہیں کہ جنگلات پر آگ لگ گئی بلکہ اس میں موجود حشرات، چرند اور پرند یا تو مرجاتے ہیں اور یا وہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جس سے ایکوسسٹم متاثر ہوتا ہے۔
داؤد خان نے ایکوسسٹم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ زمیں پر مختلف انواع و اقسام کے پودے، حشرات، جانور اور انسان رہتے ہیں اور ان کے درمیان قدرتی طور پر حرارت کا ایک توازن رہتا ہے تو ان میں سے اگر کوئی بھی اس نظام سے باہر ہو جائے تو ماحول پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
محمد داؤد کہتے ہیں "جب جنگلات کاٹے جاتے ہیں یا آگ کی نذر ہو جائیں تو اس میں رہنے والے جاندار آبادی کی طرف جاتے ہیں اور ان میں موجود وائرس یا بیکٹیریا انسانوں میں منتقل ہو جاتا ہے جس کی ایک مثال منکی پاکس بیماری ہے، دوسرا یہ کہ جہاں پر آگ لگ جاتی ہے وہاں پر کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کا اخراج ہوتا ہے اور یہی گیس ماحول کو آلودہ کر دیتی ہے جس سے اوزون لیئر/سطح میں سوراخ ہو جاتا ہے اور سورج کی تپش بڑھ جاتی ہے اور یہی گرمی کا سبب بن جاتی ہے۔”
صحافی داؤد کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کی شرح بھی ماحول کیلئے ایک چیلنج بن چکی ہے، لوگوں کے رہنے کیلئے زرعی زمینوں کو ہاؤسنگ سوسائٹیز میں تبدیل کیا جاتا ہے جس سے نہ صرف خوراک کی کمی واقع ہوتی ہے بلکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کا انجذاب بھی متاثر ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے بچنے کیلئے درختوں کی تعداد میں اضافہ اور کاربن ڈائی آکسائڈ گیس میں کمی لانا پڑے گی جس کیلئے نہ صرف حکومتی سطح پر اقدامات اُٹھانے ہوں گے بلکہ معاشرے کے ہر فرد کو عملی کردار ادا کرنے پڑے گا۔