لائف سٹائل

خیبر پختونخوا: بہتر گھاس اگانے کی خاطر سارے جنگلات جلائے گئے

انور زیب

ہر سال کی طرح اس سال بھی گرمیاں شروع ہوتے ہی ملک بھر میں پہاڑوں پر آگ لگنے کے واقعات شروع ہو گئے، پہلے بلوچستان اور اب خیبر پختونخوا کے متعدد پہاڑ آگ کی زد میں ہیں۔ بونیر، شانگلہ اور سوات میں جنگلات پر لگی آگ نے تباہی مچا دی ہے۔ ضلعی انتظامیہ، ریسکیو اہلکار اور مقامی رضاکار آگ بجھانے میں مکمل ناکام ہو گئے ہیں۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ان پہاڑوں پر نہ صرف لاکھوں درخت اور بے شمار پودے جل کر راکھ ہو گئے ہیں بلکہ جنگلی جانور اور پرندوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔

محکمہ جنگلات کے ضلعی آفیسر ارشد علی خان کے مطابق بونیر میں کئی مقامات پر آگ لگ گئی تھی جن میں سے ایک دو مقامات کے علاوہ باقی تمام جگہوں میں آگ پر قابو پا لیا گیا ہے، ان دو مقامات میں تحصیل چغرزی کا علاقہ ٹانٹا بھی شامل ہے، جنگلات پر لگی آگ کی سب سے بڑی وجہ مقامی لوگوں کی غفلت ہے۔ ارشد علی کے مطابق مون سون سے پہلے پہاڑوں میں رہنے والے لوگ جنگلات کے قریب کھیتوں اور گھاس اگنے والی جگہوں کو آگ لگا لیتے ہیں کیونکہ جو جگہ جل جاتی ہے وہاں اچھی گھاس اگتی ہے تاہم اکثر اوقات آگ بے قابو ہو کر تباہی مچا دیتی ہے۔

گزشتہ دس دنوں کے دوران بونیر میں گوکند، بیکند، ایلم، دو کڈہ، ٹانٹا، مندنڑ، ٹانگوڑہ سمیت درجن بھر علاقوں میں جنگلات پر آگ لگنے کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ محکمہ جنگلات کے مطابق پہاڑوں کو آگ لگانے کی پاداش میں رواں ماہ دوکڈہ کے ایک رہائشی کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا جبکہ مزید چار افراد کے خلاف بھی قانونی کاروائی کی گئی ہے۔

2009 میں پاک جرنل آف پلانٹس سائنسز میں فارسٹ فائر اِن سوات پاکستان کے نام سے شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق 1993 سے 2000 تک وادی سوات میں جنگلات کو آگ لگانے کے 20 واقعات رونما ہوئے اور یہ آگ ہر جگہ/واقعہ میں مقامی لوگوں نے ہی لگائی تھی جن میں سے 50 فیصد آگ جان بوجھ کر زمینداروں نے لگائی تھی تاکہ بہتر گھاس اگ سکے۔ ریسرچ کے مطابق 8 واقعات میں ملزمان معلوم تھے تاہم صرف ایک کو سزا ہوئی۔

ڈی ایف او بونیر کے مطابق گرمیاں شروع ہوتے ہی جنگلات پر آگ لگنے کے واقعات رونما ہونا شروع ہو جاتے ہیں، اس پر قابو پانے کیلئے بہت زیادہ ریسورسز درکار ہوتے ہیں اور اس کام کیلئے زیادہ اہلکاروں کی بھی ضرورت ہوتی ہے، آگ لگانے والے اصل ملزمان تک پہنچنا بھی کبھی کبھار بہت زیادہ مشکل ہوتا ہے کیونکہ پتہ نہیں لگتا کہ آگ پہلے کہاں لگی اور کس نے لگائی۔

انہوں نے بتایا کہ انسانوں کے علاوہ کبھی کبھار آسمانی بجلی گرنے سے بھی جنگلات کو آگ لگ جاتی ہے تاہم اس آگ کے پھیلنے کا خدشہ کم ہوتا ہے کیونکہ بارش کے باعث یہ اگ خود بخود بجھ جاتی ہے، صرف ضلع بونیر میں پانچ مقامات پر اپریل کے مہینے میں آسمانی بجلی گرنے سے آگ لگی تاہم اس سے بہت کم نقصان ہوا۔

مقامی لوگ بھی محکمہ جنگلات کے موقف کی تائید کرتے ہیں۔ ان کے مطابق موسم بہار کی بارشوں کے ساتھ جو تھوڑی بہت گھاس اگ آتی ہے وہ مئی میں خشک ہو جاتی ہے، اس گھاس کو مکمل ختم کرنے کیلئے لوگ آگ لگا لیتے ہیں جو کہ اکثر اوقات پھیل کر نقصان کا باعث بن جاتی ہے، جب گھاس جل جاتی ہے تو مون سون کی بارشوں سے نئے سرے سے گھاس اگ آتی ہے جو کہ بہت بہتر ہوتی ہے، مویشی پالنے والے لوگ یہ گھاس گرمیوں کے خاتمے میں کاٹ کر سردیوں میں استعال کیلئے رکھ دیتے ہیں، جہاں آگ لگ جاتی ہے تو وہاں گھاس کی پیداوار دگنی ہو جاتی ہے۔

محکمہ وائلڈ لائف خیبر پختونخوا کے ایک آفیسر ابرار حسین کے مطابق جنگلات کو آگ لگنے کی صورت میں بائیو ڈائیورسٹی کو شدید نقصان پہنچتا ہے کیونکہ یہ اکثر بریڈنگ سیزن میں لگ جاتی ہے تو اکثر پرندے گھونسلوں میں انڈے اور بچے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں جبکہ بیشتر تو خود آگ اور دھویں کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ ان کے مطابق بچ جانے والے پرندوں کو خوراک کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ آگ لگنے سے پرندوں اور جانوروں کے کھانے کے تمام ذرائع مثلاً حشرات اور جنگلی میوے پہلے سے جل چکے ہوتے ہیں۔

ابرار حسین کے مطابق ضلع بونیر اور ملحقہ علاقوں میں جنگلات میں آگ لگنے کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باعث گورال جس کو مقامی زبان میں جنگلی بھیڑ بھی کہا جاتا ہے، اس کی ابادی میں بھی کمی آئی ہے، اس کے علاوہ تیتر، بٹیر اور وہ پرندے جو زیادہ پرواز نہیں کر سکتے ان کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔

ملاکنڈ ڈویژن میں محکمہ جنگلی حیات کی جانب سے مختلف پہاڑوں اور جنگلوں میں فائر لائن بھی بنائے گئے ہیں تاکہ آگ لگنے کی صورت میں آسانی سے قابو پایا جا سکے تاہم بڑے جنگلوں تک جب آگ پہنچ جاتی ہے تو اس کو فائر لائن سے بھی قابو کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

ابرار کا کہنا تھا کہ کبھی کبھار لوگ پکنک مناتے ہوئے بھی عفلت برتنے کا مظاہرہ کرتے ہیں، لہذا سیاحوں کو احتیاط سے کام لینا چاہیے، کسی بھی جگہ کھانے بناتے وقت دیکھنا چاہیے کہ آس پاس خشک گھاس اور پودے تو نہیں اور بعد میں بھی تسلی کرنی چاہیے کہ آگ ٹھیک طریقے سے بجھی ہوئی ہو۔

ماہرین ماحولیات کے مطابق گرمیوں میں آگ کے جلدی پھیلنے کا خطرہ اس لیے بھی ہوتا ہے کہ اکثر اوقات خشک سالی کی وجہ سے گھاس اور پودے خشک ہو جاتے ہیں، درختوں کے پتے بھی جڑ جاتے ہیں جو کہ آگ پھیلنے کا ذرائع بنتے ہیں۔

ماہر ماحولیات ڈپٹی ڈائریکٹر کلائمیٹ چینج انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجننسی افسر خان کے مطابق پاکستان میں گزشتہ چند سالوں میں جنگلات میں کافی اضافہ ہوا اور پیرس معاہدے کے اہداف بلین ٹری سونامی کی شکل میں ہم نے حاصل کئے ہیں تاہم اس معاہدے کے تحت ترقی پذیر ممالک کے ساتھ جو وعدے کئے گئے تھے وہ ابھی تک پورے نہیں ہوئے، حکومت پاکستان کو چاہیے کے پیرس ایگرمنٹ کے تحت تر ہمارے ساتھ جو وعدے کیے گئے تھے ان کو پورا کرنے کیلئے ترقی یافتہ ممالک پر زور دیں۔

افسر خان کے مطابق ہمارے ہاں جنگلات پر جب آگ لگ جاتی ہے تو بجھانے کیلئے ٹیکنالوجی اور تربیت چاہیے ہوتی ہے جو کہ ہمارے پاس نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ہر سال آگ لگنے سے بڑے پیمانے پر جنگلات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ان کے مطابق اب وقت ہے کہ پیرس معاہدے کے تحت پاکستان کو آگ بجھانے کی ٹیکنالوجی اور یہاں ماہرین ماحولیات کو تربیت دی جائے تاکہ مستقبل میں آگ لگنے کی صورت میں نقصان کو کم سے کم رکھا جا سکے۔

افسر نے بتایا کہ درخت آکسیجن پیدا کرتے ہیں، درخت ہوں گے تو ہم ہوں گے، درخت نہیں تو انسان ہوں گے اس دنیا میں نہ جانور نہ حشرات، جنگلات کو آگ لگانے سے بائیوڈائورسٹی کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔

نوٹ: ابرار حیسن کا نام تبدیل کیا گیا ہے، کیونکہ وہ اجل اگ سے متاثرہ علاقوں میں ڈیوٹی پر نہیں ہے

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button