کیا خیبر پختونخوا اک بار پھر سیاست کی نذر ہونے والا ہے؟
محمد فہیم
خیبر پختونخوا نے 2013 میں عمران خان کو مینڈیٹ دیا اور اس وقت عمران خان کی جماعت تحریک انصاف نے مخلوط حکومت بنائی اور وفاق میں مسلم لیگ ن کی تگڑی حکومت کے ساتھ پنگا لے لیا۔ اس وقت صوبے میں پرویز خٹک جیسے زیرک سیاست دان نے عمران خان اور نواز شریف کے جھگڑے میں خیبر پختونخوا کے حقوق کا کسی نہ کسی حد تک خیال رکھا اور جس قدر ممکن ہو سکا پرویز خٹک نے بطور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے حقوق کیلئے وفاق سے جنگ لڑی۔
اس کے بعد 2018 میں خیبر پختونخوا نے عمران خان کو دو تہائی اکثریت دیے دی جبکہ پنجاب میں بھی اتحادیوں کی مدد سے حکومت قائم کر دی گئی۔ صوبے اور وفاق میں ایک ہی جماعت کی حکومت آنے کے بعد یہ امکان پیدا ہو گیا تھا کہ اب خیبر پختونخوا کو وہ حقوق مل جائیں گے جس کا اکثر صرف چرچا ہوا کرتا تھا تاہم عمران خان نے سیاسی طور پر اپنے لئے محاذ کھولنے کی بجائے پنجاب میں عثمان بزدار اور خیبر پختونخوا میں محمود خان پر اعتماد کیا جس کا براہ راست فائدہ عمران خان کو ہوا بطور وزیر اعظم انہیں ایسے وزرائے اعلیٰ ملے جو عمران خان کے سامنے لبوں کو جنبش تک دینے سے گھبراتے رہے اور نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں صوبوں کو اپنے حقوق سے محروم ہونا پڑا۔ خیبر پختونخوا جو وفاق سے امید لگائے بیٹھا تھا ان ساڑھے تین سالوں میں اپنے حق کیلئے بول بھی نہیں سکا اور خاموشی سے عمران خان کی حکومت پر صرف زندہ باد کا نعرہ لگاتا رہا۔
معاملہ پلٹا اور ایسا پلٹا کہ عمران خان کے ہاتھ سے نہ صرف وفاق بلکہ اب پنجاب بھی نکل گیا اور ایک بار پھر عمران خان کی توجہ کا مرکز خیبر پختونخوا بن گیا ہے۔ ساڑھے تین سالوں تک خیبر پختونخوا کو نظر انداز کرنے کے بعد اب ایک بار پھر خیبر پختونخوا سے مدد مانگی جا رہی ہے، یہاں کی عوام سے اعتماد مانگا جا رہا ہے تاہم اس حوالے سے سینئر صحافی عزیز بونیرے اختلاف رکھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ عمران خان کو بطور وزیر اعظم خیبر پختونخوا نظر نہیں آیا، پن بجلی منافع ہو یا پھر اے جی این قاضی فارمولہ کے 700 ارب سے زائد کے بقایاجات عمران خان وزیر اعظم کا دفتر ہمارے منتخب نمائندوں کی زبان بندی کیلئے استعمال کیا گیا۔
عزیز بونیری کہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا سستی بجلی پیدا کرتا ہے اور ان ساڑھے تین سالوں میں ہماری بجلی کی قیمت تک متعین نہیں کی جا سکی، حکومت نے ہمارے پانی استعمال کرنے کے بقایاجات بھی نہیں دیئے جبکہ قبائلی اضلاع سے کیا گیا وعدہ بھی صرف کاغذات تک محدود رہا ایسے میں ایک سے بڑھ کر ایک چیلنج صوبائی حکومت کو درپیش ہے۔
عزیز بونیری کے مطابق وفاق میں مسلم لیگ ن اب خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کو سکھ کا سانس لینے نہیں دے گی جبکہ محمود خان اس پریشر میں کام کرنے کیلئے انتہائی غیرموزوں ہیں۔
خیبر پختونخوا حکومت کو مستقبل میں درپیش چیلنجز کے حوالے سے سینئر صحافی اہتشام خان کہتے ہیں کہ انسپکٹر جنرل آف پولیس اور چیف سیکرٹری سمیت کئی اہم افسران کا وفاق واپس جانا اور وہاں سے ایسے افسران کا یہاں آنا جو صوبائی حکومت کیلئے مسائل کھڑے کریں گے نوشتہ دیوار ہے، جلد ہی بڑے پیمانے پر بیوروکریسی میں اکھاڑ پچھاڑ ہو گی اور موجودہ صوبائی حکومت جو بیوروکریٹس چلا رہے ہیں وہ یہاں نہیں رہیں گے جس کے بعد آئندہ ڈیڑھ برس محمود خان کی حکومت کیلئے انتہائی کٹھن ہوں گے۔
خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ اور صحت تیمور سلیم جھگڑا بھی اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے تیار ہیں۔ تیمور سلیم جھگڑا کا کہنا ہے کہ وفاق خیبر پختونخوا حکومت کی مرضی کے بغیر تبدیلی نہیں کر سکتا، اگر ایسا کیا گیا تو یہ اقدام اٹھارہویں ترمیم کی خلاف ورزی ہو گا اور یہ صوبائی خودمختاری کیخلاف ہو گا اگر ایسا کیا گیا تو وفاق بھی دیکھ لے گا کہ خیبر پختونخوا حکومت کیا کرتی ہے، اس وقت موجودہ ٹیم بہترین کام کر رہی ہے اور انہیں کام کرنے دینا چاہئے۔
تیمور جھگڑا نے کہا کہ اب اپوزیشن کا امتحان شروع ہو گیا ہے، اے جی این قاضی کے 700 ارب سے لے کر قبائل کے 3 فیصد قابل تقسیم محاصل کی ادائیگی وفاقی حکومت کی شراکت دار جمعیت علماءاسلام، عوامی نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ن سمیت محسن داوڑ کی ہے، عوام بھی دکھ لے گی کہ اقتدار میں آنے کے بعد یہ جماعتیں کس حد تک خیبر پختونخوا اور قبائل کو ان کا حق ادا کرتی ہیں۔
سیاسی بیان بازی تحریک انصاف کی جانب سے شروع ہو گئی ہے تاہم تحریک انصاف، مسلم لیگ ن، جمعیت علماء اسلام اور عوامی نیشنل پارٹی کی اس سیاسی جنگ میں سب سے زیادہ نقصان خیبر پختونخوا کے عوام کا ہو گا، تحریک انصاف اگر سیاسی فرنٹ پر کامیاب ہو بھی گئی تو عوام چکی میں پس چکی ہو گی اور اگر وفاق کامیاب ہو گیا تو یہ ڈیڑھ برس کا دور عوام انتہائی مشکل سے گزاریں گے۔