ماخام خٹک
اپنی کتاب ‘نظریاتی مباحث اور عہد حاضر’ میں ٹیری ایگلٹن رقم طراز ہے کہ "ایسا نہیں ہے کہ سیاسی زندگی کا کوئی ایک پہلو غیر معتبر ہو گیا ہو، بلکہ خود سیاست ہی غیر معتبر ہو گئی، اور دنیا کی طاقت ور ترین قوم روایتی سیاسی عمل کو معتبر بنانے کی بجائے رئیلٹی ٹی وی سے لئے گئے ایک مسخرے کو اپنا قائد منتخب کرنے کو تیار ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ونسٹل چرچل اور جان ایف کینیڈی کے زمانے میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔ سیاست ایک بدتہذیبی بن گئی ہے جس میں آپ اگر غلط وقت پر غلط جگہ پر ہوں تو شاید اپنی کھوپڑی کو پاش پاش پائیں گے۔”
دنیا میں جتنے بھی شعبہ ہائے زندگی ہیں کسی نہ کسی اخلاقی اقدار سے وابستہ ہیں اور اگر کوئی کسی ایک بھی قدر سے روگردانی کرتا ہے تو اِسے نہ صرف برا مانا جاتا ہے بلکہ روگردانی والے فرد یا افراد پر معاشرتی دباؤ بھی ڈالا جاتا ہے، انہیں کئی طرح سے سماجی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، طنز و تشنیع اور لعن طعن کے سماجی عمل سے بھی انہیں گزارا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک بندہ تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہے اور وہ تعلیمی ادارے میں رہ کر اس ادارے کے تمام اصول، اقدار اور ضوابط پاؤں تلے روندتا ہے تو نہ صرف اس کے خلاف محکمه جاتی کارروائی ہوتی ہے بلکہ سماجی فشار سے بھی اسے گزارا جاتا ہے۔
اسی طرح اگر ایک بندہ بینکاری کے شعبے سے وابستہ ہے اور وہ بینک کے اندر یا بینک سے متعلقہ یا بینک کی ذمہ داری ادا کرنے کے دوران کسٹمرز سے بے قاعدگیوں یا بینکاری کے اخلاقی ضوابط کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے تو اسے بھی بالکل مذکورہ بالا کی طرح نہ صرف محکمہ جاتی کارروائی سے گزرنا پڑے گا بلکہ سماجی طور پر بھی عوامی غیض وغضب کا شکار ہو گا۔
اسی طرح اگر کوئی عدلیہ سے کسی بھی حوالے سے تعلق رکھتا ہو اور وہ عدلیہ کی محکمہ جاتی کارروائی کے دوران اپنے محکمہ جاتی فرائض منصبی کے ساتھ ساتھ عوامی وابستگی کے فرائض منصبی کی خلاف ورزی میں ملوث پایا جائے تو اسے بھی محکمہ جاتی انضباطی کارروائی کے ساتھ ساتھ عوامی، سماجی اور اخلاقی فشار کی تندو تیز تھپیڑوں کو بھی منہ دینا پڑے گا۔
لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری سیاست یا سیاست داں بطور ادارہ جسے مقننہ یا پارلیمنٹ کہتے ہیں پہلے تو انہیں استثناء حاصل ہے کہ وہ جو بھی کریں، جو بھی بولیں، وہ جس طرح بھی بولیں اور جس طرح بھی کریں کسی بھی انضباطی کارروائی کی گرفت سے بالا تر ہیں البتہ سماجی ردعمل یا اخلاقی فشار کی استثنی انھیں نہیں حاصل۔ اور بطور ادارہ اگر یہ اس معیار یا قدر کے حامل ہیں یا پھر اس ادارے یا ادارے کے افراد کا اخلاقی لیول اتنا اونچا ہے کہ ان کا کوئی بھی عمل قابل گرفت نہیں تو پھر ان سے اتنے ہی اعلیٰ اخلاق اور اعلیٰ فرائض کی توقع بھی کی جاتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک ادارے کو سارے ملک یا معاشرے کے لئے قانون و ضابطہ اخلاق بنانے کا ذمہ دار گردانا جائے اور خود کسی اخلاقـی یا ضابطہ اخلاق پر کاربند یا کسی کو جواب دہ نہ ہو۔
آئے دن عمومی طور پر دنیا کے اکثر ممالک کے ایوانوں اور بالخصوص ہمارے ملک کے ایوانوں بشمول ملکی اور صوبائی ایوانوں میں منتخب اراکین لڑائی جھگڑے، ایک دوسرے پر لعن طعن، دھینگا مشتی، ایک دوسرے سے دست و گریبان، بدزبانی کرتے نظر آتے ہیں اور مزے کی بات یہ کہ ان اجلاسوں کا بھی وہ باقاعدہ ٹی اے ڈی اے لیتے ہیں جس کے دوران صرف اور صرف یہ مندرجہ بالا عمل کیا گیا ہو اپنے فرائض منصبی ادا ہی نہ کئے گئے ہوں۔
بالکل اسی طرح انتخابات کے دوران ایک دوسرے کے خلاف غیراخلاقی سکینڈلز نکالنا اور ایک دوسرے پر تہمت لگانا ایک دوسرے کے خلاف عوام کو اکسانا پھر اسی طرح ذاتی طور پر کرپشن، اقربا پروری، خوردبرد اور دیگر سرگرمیوں میں ملوث ہونا، پھر اسی طرح کبھی ایک سیاسی پارٹی میں ہونا کبھی دوسری پارٹی میں ہونا بذات خود ناقابل بھروسہ عمل ہے، رشوت کی الزام تراشی، سینٹ کے الیکشن کے دوران اپنی وفاداری بدلنا، عدم اعتماد کی تحریک کے دوران اپنی سیاسی وفاداری بدلنا یہ سارے سیاسی بداخلاقی اور سیاسی ضابطہ اخلاق کے منافی ہیں۔ ایک ہی خاندان کے افراد کا کئی پارٹیوں میں ہونا یا ایک ہی خاندان کے افراد کا موروثی طور پر پارٹی پر قابض ہونا یہ سب سیاسی اخلاقیات اور سیاسی قواعد و ضوابط کے خلاف ہے۔
حال ہی میں حکومتی پارٹی کے منتخب اراکین اسمبلی کا اپنی پارٹی چھوڑنا، گزشتہ سینٹ میں ووٹنگ کے ہیرپھیر، بلوچستان اسمبلی میں سیاسی جوڑ توڑ یہ سب سیاسی اخلاقیات اور سیاسی ضوابط سے وابستہ ہیں۔
اپنی پارٹی کے بندے یا لیڈر کو سپوٹ کرنا بھلے وہ ہر لحاظ سے غلطی پر ہو دوسری پارٹی کے افراد کو غدار اور داغدار کہنا اور اپنوں کو بے داغ اور محب وطن گرداننا، بلکہ آج کی بات ہے سندھ حکومت کے ایم پی اے لیول کے لوگ سندھ اسمبلی بلڈنگ میں علامتی طور پر اپوزیشن اور اتحادیوں کے پتلوں کو اپنی دانست می سرعام پھانسی پر چڑھا رہے تھے۔
یہ سب کیا ہے اور ہم کس طرف جا رہے ہیں، کیا اس کا کوئی اختتام بھی ہے یا یہ شروعات ہیں؟ سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ سیاست میں یہ رویہ بھٹو صاحب نے متعارف کیا تھا اور موجودہ وزیراعظم بھٹو صاحب کی نقل کرتے ہوئے خط کے لہرانے اور امریکہ پر سازش کے الزامات میں تو یہاں تک آ گئے ہیں لیکن مزید یہ کہہ کر خاموش ہو جاتے ہیں کہ شاید بھٹو صاحب کی چال چلتے چلتے اپنی بھی بھول گئے اور اب ہنس کی بجائے کوے کی چال چل رہے ہیں لیکن کوا کیسے بھی چال چلے پر چال بتانے کا ماہر ضرور ہے اور ضرورت کے وقت چال چلانے، بتانے اور اس کا حل نکالنے کے لئے بھی مشہور ہے۔