لائف سٹائل

پشاور: جلال آباد کے نورجان پولیس سے بہت تنگ۔۔ مگر کیوں؟

 

انور زیب

پاکستان میں پہلے سے رہائش پذیر یا پھر گزشتہ سال اگست کے بعد آنے والے نئے افغان مہاجرین یہ شکوے شکایت کرتے ہیں کہ یہاں پر پولیس انہیں بے جا تنگ کرتی ہے لیکن اس سلسلے میں وہ اپنی غلطیوں کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہیں۔

افغان مہاجرین سمیت پاکستان آنے والے ہر غیرملکی کے لئے ضروری ہے کہ اس کے پاس قانونی دستاویزات ہوں کیونکہ اس کے بغیر انہیں غیرقانونی قرار دیا جائے گا اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ پندرہ اگست دو ہزار اکیس کو جب افغانستان میں حالات بدل گئے تو ہزاروں کی تعداد میں افغان مہاجرین قانونی دستاویزات لے کر پاکستان آئے لیکن ان میں کثیر تعداد ان افغانوں کی بھی ہے جو غیرقانونی طریقے سے پاکستان آئے ہوئے ہیں، جن کے پاس نہ تو پاسپورٹ ہیں اور نہ کوئی اور کارڈ۔

جلال آباد سے آئے ہوئے نورجان بھی ان افغانیوں میں شامل ہیں جن کے پاس دستاویزات نہیں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ یہاں اب پولیس کے رویے سے وہ بہت تنگ آ چکے ہیں، ” پولیس یہاں ہمیں کارڈ کی وجہ سے تنگ کرتی ہے، کبھی کبھی پکڑ لیتی یے، میں ہوں جلال آباد کا لیکن اب یہاں پر مقیم ہوں، جہاں کہیں بھی کچھ ہو جائے تو اس کا الزام افغان مہاجرین پر لگ جاتا ہے (اور پکڑ دھکڑ شروع ہو جاتی ہے) تو اس بارے میں ہم کیا کہہ سکتے ہیں، اس بارے میں ہم تو کچھ نہیں کہہ سکتے۔”

دوسری جانب شمس رحیمی اپنے ہم وطنوں پر یہ زور دیتے ہیں کہ افغانی بھائی بغیر اسناد کے پاکستان نہ آیا کریں اور جو افغان یہاں پاکستان میں ہیں تو وہ بھی گھر سے نکلتے وقت اپنے دستاویزات ساتھ لے کر گھر سے نکلا کریں، ”اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس کے پاس ثبوت نا ہوں، کارڈ نا ہو، تو پھر وہ (پولیس والے) تو خوامخواہ تنگ کریں گے اس لئے کہ کوئی ثبوت تو رکھو جو پاکستان میں پھر رہے ہو، کوئی پاسپورٹ ہو یا کارڈ ہو، لیکن اس کے پاس کارڈ ہو گا نا پاسپورٹ اور شاید اسی وجہ سے اسے تنگ کیا جائے گا۔”

افغانستان کے ننگرہار صوبے سے آئے ہوئے عزیز نے یہ الزام عائد کیا کہ تمام تر اسناد کی موجودگی کے باوجود پولیس انہیں تنگ کرتی ہے، اور جو افغانی تعلیم کی غرض سے آتے ہیں تو انہیں اور بھی زیادہ تنگ کیا جاتا ہے، ”پاکستان میں اگر مختلف صوبوں میں جاتے ہیں اپنی تعلیم یا کاروبار کے سلسلے میں تو ہمیں مختلف قسم کے مسائل پیش آتے ہیں، پولیس والے ہمیں کسی نا کسی طرح سے لازماً تنگ کرتے ہیں، اگرچہ ہم کاغذات کے حوالے سے ریگولر ہیں، ہمارا یہاں کا ویزہ، سٹوڈنٹ ویزہ ہو یا وزٹ ویزہ اور یا ہمارا پاسپورٹ ریگولر ہوتا ہے لیکن پولیس والوں کے ساتھ (یہ معاملہ) اس طرح نہیں ہوتا، (وہ) کوئی نا کوئی ایسا بہانہ ڈھونڈ لیتے ہیں جس کے زریعے ہمارے لئے مسئلہ پیدا کر سکیں۔”

شمس رحیمی نے بتایا،”عام افغانوں کو بھی یہاں مسائل ہیں، سٹوڈنٹس کو بھی مسائل درپیش ہیں، خصوصاً ان افغان سٹوڈنٹس کو بہت مسائل ہوتے ہیں جنہیں پاکستان کی ریگولر زبانوں کا مسئلہ ہوتا ہے مثلاً پشتو کا یا اردو (بولنے/سمجھنے) کا مسئلہ ہوتا ہے، وہ لوگ جو فارسی بولتے ہیں انہیں زیادہ مسئلہ ہوتا ہے، ان کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے ہاسٹلوں، یونیورسٹیوں سے باہر نا جائیں (کیونکہ) باہر جاتے ہیں تو پولیس سے کوئی نا کوئی مسئلہ ضرور ہوتا ہے۔”

پشاور: جلال آباد کے نورجان پولیس سے بہت تنگ۔۔ مگر کیوں؟دوسری جانب ایس پی سٹی پشاور محمد عاتیق شاہ کا کہنا ہے کہ افغان ہمارے بھائی ہیں اور پولیس ان کے ساتھ مکمل تعاون کرتی ہے اور اگر کسی کے ساتھ برا سلوک ہو جائے تو اس کا پھر پوچھتے بھی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر کسی افغان شہری کے ساتھ اسناد نا بھی ہوں تو پھر پولیس یہ دیکھتی ہے کہیں وہ مریض تو نہیں یا کسی مشکل میں تو نہین اور یا پھر اس کے ساتھ کوئی خاتون تو نہیں ہے، ”کبھی بھی ہم یہ اجازت کسی کو نہیں دیتے کہ کوئی پولیس والا آ کر ہمارے افغان بھائیوں کو بے جا تنگ کرے، ایسے افغان بھائی ہمارے ہیں جن کے ساتھ کسی پولیس والے کے ہاتھوں زیادتی ہوئی ہے تو ہم نے باقاعدہ پوچھا ہے کہ کیوں ہو رہی ہے یہ زیادتی، کبھی نہیں ہو گی (کسی کے ساتھ بھی کوئی) زیادتی، اس کی ایک اور بڑی مثال میں آپ کو یہ دوں گا کہ جب بھی ان میں سے کسی کے پاس کارڈ نا ہو، غیرقانونی ہو تو اس میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ یہ بندہ مریض تو نہیں، اس کے پاس خواتین تو نہیں، اس کے پاس چھوٹا بچہ ہے، یہ مجبوراً آیا ہے یا ایسے ہی آیا ہے، تو ضروری ہے کہ اس کے پاس کسی قسم کا اجازت نامہ کوئی سفری دستاویزات تو ہوں، کارڈ والا ہو تو اسے تو ہم کسی صورت تنگ نہیں کرتے،”

ایس پی سٹی نے بتایا کہ اگر کسی سے کوئی جرم سرزد ہو جائے خواہ وہ پاکستانی ہو یا افغانی تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہو سکتی ہے، اور اگر کسی افغان مہاجر کے ساتھ کوئی زیادتی ہو رہی ہو تو وہ ان کے پاس آ سکتا ہے یا ٹیلی فون کے زریعے ان کے ہاں اپنی شکایت درج کروا سکتا ہے، اس کا پورا خیال رکھا جائے گا، ”ہمارے ہر افسر کا نمبر، ہر کسی کو پتہ ہے، سوشل میڈیا پر دستیاب ہے، موجود ہے، ہر تھانے کے باہر ہمارے کمپلینٹ (شکایات) نمبر درج ہیں، 15 پر وہ کمپلینٹ کر سکتے ہیں، اگر اپنی سٹی تھانوں کا بتاؤں تو ہر تھانے کے باہر ڈی ایس پی کا نمبر، ایس ایچ او کا نمبر، محرر کا نمبر یہاں تک کہ میرا نمبر اور ہمارے کنٹرول کے سب نمبرات درج ہیں، ان پر ہم نے واضح لکھا ہے کہ کسی کے ساتھ کوئی زیادتی ہو رہی ہو، کسی کمپلینٹ کی صورت، جائز کام نا کرنے کی شکایت ہو تو اس اس نمبر پر آپ کمپلینٹ کر سکتے ہیں، شکایت کر سکتے ہیں، جس کے ساتھ بھی زیادتی ہو رہی ہو اس کی ہم دادرسی کریں گے، ہمارے بھائی ہیں اور کبھی (کسی کو) یہ موقع نہیں دیں گے کہ ہمارے افغان بھائیوں کے ساتھ (کسی طرح کی  کوئی) زیادتی ہو۔”

محکمہ پولیس خیبر پختونخوا کے بعض زرائع کے مطابق غیرقانونی افغان پناہ گزینوں کے خلاف کارروائی کا اختیار انہیں ازروئے قانون حاصل ہے لیکن پھر بھی افغان مہاجرین کو درپیش مشکلات کو دیکھتے ہوئے اس کارروائی سے گریز کیا جاتا ہے۔

زرائع یہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بھی قسم کے ناخوشگوار واقعے کی صورت میں انہیں شبہ سب سے پہلے غیرقانونی طور پر مقیم افغان مہاجرینوں پر ہی ہوتا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button