سیاستکالم

بھٹو صاحب! دکھ تو یہ ہے تیرا قاتل تیرا درباری تھا…

انصار یوسفزئی

آج کل پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان کے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں، یہ اپنی کرسی سے جاتے ہیں یا نہیں یہ فیصلہ تادم تحریر ہونا باقی ہے لیکن آج ہم ایک ایسے کردار کا ذکر کریں گے جس کا حوالہ آج کل عمران خان اپنی تقاریر میں بڑی شدومد سے کرتے ہیں۔

یہ 5 جولائی 1977 کی بات ہے، اس دن جنرل ضیاء الحق نے عوام کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو مارشل لاء کے نفاذ کے فوری بعد وزارت عظمیٰ سے محروم کر کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا اور دو سال کے اندر اندر یعنی آج ہی کے دن 4 اپریل 1979 کو قتل کے ایک مقدمے میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کی پاداش میں تختہ دار پر لٹکا دیا۔

یہ سوالات آج چار دہائیاں گزرنے کے باوجود اپنی جگہ موجود ہیں کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا، کیوں ہوا اور اس کی بنیادی وجوہات کیا تھیں؟ مارچ 1977 کے عام انتخابات، جو 1978 میں منعقد ہونے تھے لیکن بھٹو کے سیاسی مشیروں نے بھٹو صاحب کو مشورہ دیا کہ آپ یہ انتخابات 1977 میں کروا دیں کیوں کہ اس وقت آپ کی پوزیشن کافی اچھی ہے اور ایک سال بعد آپ کی پوزیشن شائد ایسی نا ہو جیسی آج ہے لہٰذا اس سال ہی انتخابات کا انعقاد کروا دیں، آپ آسانی سے جیت جائیں گے اور اگلے پانچ سالوں کیلے پھر سے سیاہ و سفید کے ملک بن جائیں گے۔ بھٹو مرحوم کو اپنے سیاسی مشیروں کا یہ مشورہ اچھا لگا اور اس کیلئے پلاننگ شروع کر دی۔ بھٹو مرحوم نے جیسے ہی عام انتخابات کا اعلان کیا تو پہلے ہی سے تاڑ میں بیٹھی اپوزیشن نے بھٹو کو سبق سکھانے کیلے پی این اے یعنی پاکستان نیشنل الائنس کے نام سے اتحاد قائم کر کے بھٹو کے خلاف انتخابی میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا۔ اب ایک طرف بھٹو مرحوم اور دوسری طرف اپوزیشن کی تمام جماعتیں، عام انتخابات ہوئے، بھٹو مرحوم نے واضح طور پر میدان مار لیا اور 155 نشستیں حاصل کر لیں۔ اپوزیشن کے مشترکہ اتحاد پی این اے کے ہاتھ صرف 36 سیٹیں آئیں۔

1977 کے عام انتخابات میں چند نشستوں پر رگنگ ثابت ہو گئی جس کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے سیاسی مخالفین کو جن میں مولانا مدودی، ظہور الہی، اصغر خان، عبدالولی خان، پیر صاحب پگاڑا شامل تھے، ان کے خلاف عوامی مہم چلانے کا موقع ہاتھ آ گیا، امن عامہ کے حالات جب خراب ہونے لگے تو حکومت اور احتجاج کرنے والے سیاست دانوں کے درمیان مذاکرات کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا اور ان مذاکرات کی دستاویزات پر حتمی دستخط ہونے ہی والے تھے کہ جنرل ضیاءالحق نے بقول کسے شب خون مار کر بھٹو کو اقتدار سے محروم کر دیا۔

بعد میں جو کچھ ہوا وہ اب تاریخ کا حصہ ہے مگر سوال یہ ہے کہ آخر بھٹو صاحب کو دھاندلی کی ضرورت ہی کیا تھی؟ وہ اگر دھاندلی کی اجازت نہ بھی دیتے تو بقول کئی مورخین کے PPP با آسانی وہ الیکشن جیت رہی تھی۔ ہاں دوسری طرف یہ ضرور ہوتا کہ اس الیکشن میں PPP کو اتنی نشستیں نہ ملتیں جو اس نے 1970 کے الیکشن میں حاصل کی تھیں لیکن پھر بھی بھٹو نے ہی وزیر اعظم بننا تھا۔ بھٹو مرحوم سے وہ جو غلطی سرزد ہوئی یعنی 1978 کے انتخابات 1977 میں کروانے کی، وہ ان کی حکومت کو لے ڈوبی، جنرل ضیاء تو جیسا کہ بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ موقع کی تاک میں تھا جس کا فائدہ اٹھا کر وہ مسند اقتدار پر جا بیٹھا اور پھر اپنے پروگرام کے مطابق اس ملک پر ایک طویل عرصے تک حکومت کرتا رہا۔ یہ تو قدرت کو منظور نہ تھا کہ وہ 1988 کے بعد بھی سیاہ و سفید کے مالک رہتے ورنہ ضیاء الحق نے تو 1992 میں فوجی وردی اتار کر مزید 5 سال یعنی 1997 تک صدر پاکستان رہنے کا پروگرام بنایا تھا اور اس کیلئے وہ 1992 میں فوج کی کمان جنرل افضال کے حوالے کرنے والا تھا۔ اگر ایسا ہو جاتا تو ضیاء الحق اس ملک پر سب سے زیادہ لمبے عرصے تک حکومت کرنے والا صدر بن جاتا یعنی 20 سال تک صدر پاکستان رہتا۔

کئی تاریخ دانوں کے بقول بھٹو اور ان کے مخالفین کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں ایک مسودہ تیار ہو چکا تھا بس اس پر فریقین کے دستخط ہونا تھئ جس کی رو سے ان نشستوں پر دوبارہ الیکشن ہونا تھا جن پر دھاندلی ہونے کا الزام تھا۔ جب جنرل ضیاءالحق کو اس حوالے سے بھنک پڑی کہ ایسا ہو رہا ہے تو اس نے اس سے قبل ہی بھٹو کو چلتا کر دیا اور یہ جواز پیش کیا کہ حالات اتنے خراب ہیں کہ بغیر مارشل لاء کے نفاذ کے دوسرا کوئی چارہ نہیں کہ انہیں درست کیا جائے۔

بھٹو صاحب کی حکومت بر طرف ہو چکی تھی اور ان کو راولپنڈی کے ڈسٹرکٹ جیل میں قید کر دیا گیا تھا اور وہ ضیاء الحق بھٹو کا نام سن کر جس کی ٹانگیں کانپتی تھیں آج بھٹو کی جگہ اقتدار پر قابض ہو چکا تھا۔ ضیاء الحق نے 90 دنوں کے اندر اندر الیکشن کرانے کا وعدہ کیا لیکن مختلف حیلوں اور بہانوں سے 11 سال اقتدار پر قابض رہا۔

بھٹو صاحب پر مشرف کے قریبی ساتھی احمد رضا قصوری کے والد رضا قصوری کے قتل کی ایک پرانی FIR کو تازہ کر کے مقدمہ چلایا گیا جو انہیں تختہ دار تک لے گیا۔

بھٹو مرحوم نے اس ملک کو 1973 کا آئین دیا جو ایک قابل قدر کارنامہ ہے، بھٹو نے اپنی کمال مہارت سے بھارت کی قید سے 90 ہزار پاکستانی فوجیوں کو چھڑوایا اور اس سے چھ پاکستانی تحصیلیں آزاد کروائیں جو اس نے 1971 کی جنگ میں قبضہ کر لی تھیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بھٹو نے اس ملک کو ایٹمی قوت بنانے کیلئے عملی اقدامات کئے، لاہور میں اسلامی ممالک کے سربراہان مملکت کی کانفرنس منعقد کروائی جو ایک تاریخی واقعہ ہے جو نہ بھٹو سے پہلے ہوا اور نہ ہی بھٹو کے جانے کے بعد!

بھٹو مرحوم نے زندگی کے بعض شعبوں میں اصلاحات کا بیڑا اٹھایا لیکن ان کے خاطر خواہ نتائج مرتب نہ ہو سکے، بہرحال آج کے دن کے حوالے سے بھٹو مرحوم کے کردار کے مختلف پہلوؤں پر ہمارے ملک میں بحث ہوتی رہے گی۔ آج کے دن ہمیں یہ افسوس کہیں نہ کہیں اور نا چاہتے ہوئے بھی ضرور رہے گا کہ کاش بھٹو چند سال اور جیتے تو آج ہماری تاریخ شائد کچھ اور ہوتی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس سے بھی بڑھ کر افسوس، ماتم اور تکلیف دہ مقام ہمارے لئے بحیثیت قوم یہ ہے کہ بھٹو کا قاتل کوئی اور نہیں بلکہ اس کا ایک درباری تھا۔

انصار یوسفزئی اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں۔ وہ اس وقت بطور نمائندہ ایشیا فری پریس (اے ایف پی) سے وابستہ ہیں۔ یوسفزئی روزنامہ آئین پشاور، روزنامہ شہباز پشاور اور ڈیورنڈ ٹائمز کے ساتھ بطور کالم نگار منسلک رہ چکے ہیں۔ انہوں نے ایڈورڈز کالج پشاور اور نمل اسلام آباد سے صحافت کی تعلیم حاصل کی ہے.
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button