مصباح الدین اتمانی
یہ سات دسمبر کی شام تھی، دفتر سے نکلا، بائیک سٹارٹ کی اور گھر کی طرف روانہ ہوا، تقریباً دس منٹ بعد حسب معمول ہنستا مسکراتا بیگ کو جھولے دیتا ہوا گھر میں داخل ہوا تو ماحول کو معمول کے برعکس پایا، نہ کوئی اپنی جگہ سے اٹھا اور نہ ہی سلام کا وہ جواب دیا جو وہ ایک عرصہ سے دیتے آ رہے تھے، سب ایک دوسرے سے دور غم میں مبتلا گم صم بیٹھے تھے، ان کے چہروں پر درد کے اثرات عیاں تھے۔ اللہ اللہ کر کے خیریت دریافت کی تو سب میری طرف دیکھنے لگے لیکن کسی میں بتانے کی سکت نہ تھی۔
اس دوران کمرے میں موجود میرا بھائی ڈاکٹر محمد اقبال باہر نکلا اور نکلتے ہی بتا دیا کہ صوبیدار صاحب پر حملہ ہوا ہے، یہ سن کر میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی، کدھر ہے وہ، کس نے کیا، کیسے ہوا یہ سب، اب وہ کس حال میں ہے؟ موبائل نکال کر والد صاحب کو فون کرنے ہی والا تھا کہ کسی نے کہا "پاچا بھی صوبیدار صاحب کے ساتھ ہے۔”
میرے والد محترم کو خاندان سمیت علاقے کے لوگ پاچا کہہ کر پکارتے ہیں جبکہ صوبیدار کے نام سے میرے کزن انسپکٹر سید گل جانے جاتے تھے۔ ایک ایک سیکنڈ کے ساتھ میں غم تلے دبا جا رہا تھا، گھر سے باہر نکل کر والد محترم کو فون کیا تو آپ نے دھیمی آواز میں کہا ”بیٹا! صوبیدار صیب شہید ہو گیا ہے، میں ہسپتال میں اس کے ساتھ ہوں۔”
یہ سب ہوا کیسے؟ میں نے پوچھا۔ تو بتایا کہ مسجد کیلئے خریدے گئے سولر پینلز لے کر ہم ایک گاڑی میں بیٹھے خار بازار سے گھر جا رہے تھے، خار منڈا روڈ پر راغگان کے مقام پر واقع ایف سی چیک پوائنٹ کو کراس کرتے ہی ایک تیز آواز سنائی دی جس کے ساتھ ایک گاڑی تیزی سے آگے نکل گئی، ڈرائیور نے گاڑی روکی، صوبیدار صیب اگلی سیٹ پر بیٹھے تھے، میں یہ سمجھ کر نیچے اترا کہ ہماری گاڑی کو سپیڈ میں نکلنے والے دوسری گاڑی نے ٹکر ماری ہے، لیکن جب صوبیدار صاحب کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھیں بند ہو گئی تھیں، گردن دائیں طرف ڈھلک گئی تھی، میں نے چلا کر ڈرائیور سے کہا گاڑی ہسپتال کی طرف گھماو، صوبیدار صاحب کو گولی ماری گئی ہے، صوبیدار صاحب کا سر اپنی گود میں رکھا، بے قراری کے عالم میں سر اس کے سینے کے قریب کیا، دل کی دھڑکنیں محسوس کرنے کی کوشش کی، سید گل، سید گل کی آوازیں دیں لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا اور یوں میرے والد محترم زار و قطار رونے لگے!
میں نے فون بند کیا، شام کے ساڑھے سات بج رہے منٹ تھے، باجوڑ کیلئے نکلا، ذہن میں طرح طرح کے خیالات آ رہے تھے کہ کون ایسا کر سکتا ہے؟ یہ تو انتہائی بے ضرر انسان تھے، جس علاقے میں ڈیوٹی کی ہے وہاں کے لوگ تو ان کی ایمانداری کے گن گاتے ہیں، ہمیشہ حق اور سچ کا ساتھ دیا ہے، چاپلوسی، کرپشن اور رشوت خوری سے تو بے انتہاء نفرت تھی، پھر کس نے اور کیوں یہ کیا؟ یہ سوالات مجھے بے آرام کر رہے تھے، میرے جذبات کو ابھار رہے تھے لیکن میں نے خود کو قابو کیا ہوا تھا۔ سفر کے دوران بہت سارے دوستوں اور مشران کی کالز بھی موصول ہوئیں، وہ احتجاج کرنا چاہتے تھے لیکن میں نے پہنچنے اور مشورہ کرنے تک صبر کا کہا!
اسی دوران مجھے واٹس ایپ پر ایک ویڈیو موصول ہوئی، جو انسپکٹر سیدگل شہید نے شہادت سے پہلے ریکارڈ کی تھی، وہ کہتے ہیں کہ مجھے اگر کچھ ہوا تو ذمہ دار موجودہ حکومت ہو گی، انہوں نے سینکڑوں اہلکاروں کو گھر میں بٹھایا ہے، اور ان کی تنخواہیں یہی افسران لیتے ہیں، میں یہاں اکیلے ڈیوٹی کرتا ہوں!
ہوا کچھ یوں تھا کہ سید گل صاحب باجوڑ پولیس میں سیکنڈ سینئر موسٹ پولیس آفیسر تھے، کچھ بندے ریٹائرڈ ہونے کے بعد بھی گھر جانے کو تیار نہیں تھے جن میں دو ڈی ایس پیز بھی شامل تھے، جن کی وجہ سے سیدگل شہید کی پروموشن رکی ہوئی تھی، باجوڑ پولیس میں موجود ریٹائرڈ مافیا اس قدر مضبوط ہے کہ ڈی پی او بھی ان کے آگے بے بس ہے، وہ سپاہیوں کو گھر میں بٹھا کر ان سے تنخواہوں میں ہر مہینہ لاکھوں روپے کمیشن لیتے ہیں، کوئی کچھ کہہ دیتا ہے تو ان کا تبادلہ کرا دیتے ہیں، اس کمیشن میں اعلی حکام کیلئے الگ ایک حصہ مقرر ہوتا ہے، منتخب نمائندے خاموش ہوتے ہیں کیوںکہ سکیورٹی کے نام پر ان کو دس دس اہلکار دے کر خاموش کرایا جاتا ہے، صحافی کچھ نہیں بولتے کیوںکہ ہر ایک کو کمیشن ملتا ہے، ہر صحافی کو دو اور تین ایلکاروں کی تنخواہ میں اپنا حصہ مقررہ وقت پر ملتا ہے، یہ مافیا اس قدر چلاک اور قومی خزانے کو دیمک کی طرح نقصان پہنچاتا ہے کہ جو بولتا ہے اس کو خاموش کر دیا جاتا ہے خواہ وہ کسی بھی طریقے سے ہو اور کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، لیکن انسپکٹر سیدگل شہید نے جھکنے کی بجائے عدالت جا کر ان کو چیلنج کیا، اس وقت فورس کے دیگر افسران نے مافیا کے خوف سے ان کا ساتھ نہیں دیا البتہ پس پشت ان کی سپورٹ ان کو حاصل تھی۔
میں نے عدالت میں انسپکٹر صاحب سے پوچھا آپ اکیلے کیوں ان کو چیلنج کر رہے ہیں، ایک انسپکٹر تو آپ سے بھی زیادہ سینئر ہے تو انہوں نے جواب دیا وہ بے غیرت ہے، وہ خوف کے مارے نہیں نکل سکتا، تاریخ کے بعد وہ واپس باجوڑ چلے گئے، ان کو وہاں مختلف آفرز کی گئیں، گاڑی اور گھر میں بٹھانے کیلئے اضافی پولیس اہلکار دینے کا کہا گیا لیکن انہوں نے ایک نہ مانی، وہ اپنی بات پر بضد تھے کہ ریٹائرڈ بندے گھر چلے جائیں اور گھروں میں بیٹھے اہلکاروں کو حاضر کیا جائے تاکہ پولیس فورس، عام عوام اور باجوڑ محفوظ ہو لیکن پولیس مافیا اور اس کے ساتھ ملے ہوئے کمیشن خور افسران نے انسپکٹر کی بات سمجھنے کے بجائے اس کا بندوبست کرنے کا فیصلہ کیا، پہلے اس سے سکیورٹی لی گئی، پھر تبادلہ کرایا گیا اور آخر میں تاریخ سے پانچ دن پہلے ان کو نشانہ بنایا گیا، شام کے وقت مین روڈ پر دو چیک پوسٹوں کے درمیان وہ فائرنگ کی زد میں آ کر شہید ہو گئے۔
ان کی شہادت کے بعد مرکزی کرداروں کا قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کچھ علم نہیں البتہ جو معلومات ہاتھ لگی ہیں وہ بھی منظر عام پر نہیں لانا چاہتے، انسپکٹر سید گل کی شہادت کے بعد چالیس بندوں میں ایک بھی پولیس اہلکار مافیا کے خوف سے کیس کی پیروی کیلئے تیار نہیں ہوا۔
میں یہ سب صرف اس لئے نہیں کہہ رہا کہ انسپکٹر میرے کزن تھے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ سکیورٹی اداروں کے اعلی افسران کو اس پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے ورنہ باجوڑ میں نہ صرف امن و امان کی غیریقینی صورتحال جاری رہے گی بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر لوگوں کا اعتماد بھی مزید کم ہوتا جائے گا۔