ٹی این این ‘کنسٹرکٹیو جرنلزم” فیلوشپ پروگرام: مقابلوں میں خواتین صحافی بازی لے گئیں
ٹرائبل نیوز نیٹ ورک کے ”کنسٹرکٹیو جرنلزم” فیلوشپ پروگرام کے مقابلوں میں خواتین صحافی بازی لے گئیں۔
اس سلسلے میں ٹرائبل نیوز نیٹ ورک (ٹی این این) کے دفتر (ڈینز ٹریڈ سنٹر) میں تقریب انعامات کا انعقاد کیا گیا جس میں مہمان خصوصی خیبر یونین آف جرنلسٹس کے صدر ناصر حسین کے علاوہ ٹی این این کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سید نذیر آفریدی، منیجنگ ایڈیٹر طیب آفریدی اور سنیئر پروڈیوسر افتخار خان سمیت مقابلے میں حصہ لینے والے مرد و خواتین صحافیوں نے شرکت کی۔
پروگرام کا انعقاد ٹی این این کے زیراہتمام ”کنسٹرکٹیو جرنلزم” (تعمیری صحافت) کی تربیت اور بعدازاں اس حوالے سے تربیت کے شرکاء میں وژوول سٹوریز (بصری خبریں/رپورٹس) کے سلسلے میں کیا گیا تھا۔
سٹوریز کی درجہ بندی کے لئے قائم جیوری میں سینئر صحافی فخر کاکاخیل، نگہت، طیب آفریدی، سید نذیر اور افتخار شامل تھے۔
جیوری کے مطابق جمائمہ آفریدی اور شریف اللہ کی سٹوری نے پہلی، وگمہ فیروز اور رحم نے دوسری جبکہ قاندی سافی اور زینت بی بی کی سٹوری نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔
اس موقع پر پہلی پوزیشن حاصل کرنے والوں کو چالیس ہزار، دوسرے نمبر پر آنے والوں کو تیس ہزار جبکہ چوتھی پوزیشن حاصل کرنے والوں بیس ہزار روپے کا نقد انعام اور توصیفی اسناد دی گئیں۔
تقریب سے اپنے خطاب میں مہمان خصوصی ناصر حسین نے ٹی این این کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے صحافت میں فروغ پانے والے جدید رجحانات پر روشنی دالی اور کہا کہ اس ادارے نے کم وقت میں اپنا ایک مقام بنایا ہے اور نئے صحافیوں کو متعارف اور پالش کر کے ایک بہترین کردار ادا کیا ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ ٹی این این کی انتظامیہ اور پوری ٹیم اس روایت کو آئندہ بھی قائم رکھیں گے اور نئے آنے والے صحافیوں کو مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے کرئیر میں بھی کلیدی کردار ادا کریں گے۔
اس موقع پر ٹی این این کے چیف ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سید نذیر آفریدی نے مہمان خصوصی اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ روایتی صحافت کو جدید رجحانات سے روشناس کرانا اور علاقے اور اس خطے کے مسائل کو بہترین انداز یں اجاگر کرنا ہے۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں پلی پوزیشن حاصل کرنے والی جمائمہ آفریدی نے کہا کہ تعمیری صحافت نہایت ضروری ہے کیونکہ اس میں مسائل کے ساتھ ساتھ ان کا حل بھی پیش کیا جاتا ہے۔
دوسری پوزیشن حاصل کرنے والی وگمہ فیروز نے بتایا کہ مسائل اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا حل بھی پیش کرنا ضروری ہوتا ہے اور یہ تعمیری صحافت کی سب سے زیادہ قابل ذکر ہے۔
زینت خان نے بھی کنسٹرکٹیو فیلوشپ پروگرام اور اس میں مقابلہ بازی کو ایک بہترین تجربہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ 13 سالہ صحافت میں انہوں نے کبھی تعمیری صحافت نہیں کی تھی، بس مسائل ہی اجاگر کرتے رہے لیکن اس میں مسائل کے ساتھ ساتھ ماہرین کے زریعے ان کا حل بھی پیش کیا جاتا ہے جو نہایت ہی ضروری ہے۔