لائف سٹائل

خیبرپختونخوا میں گھریلو سطح پر منافع بخش کاروبار مشروم کی پیداوار کا رجحان بڑھنے لگا

 

رفاقت اللہ رزڑوال
خيبر پختونخوا میں زرعی یونیورسٹی کے تعاون سے گھریلو سطح پر کسانوں نے مشروم کی کاشت کو دوام بخشا ہے۔ کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ مختصر جگہ پر کاشت ہونے والے مشروم کی پیداوار ایک ماہ کے اندر اندر شروع ہو جاتی ہے جبکہ اس کے مالی فوائد زیادہ ہیں، ادھر زرعی یونیورسٹی کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ یونیورسٹی میں مشروم کی کاشت کیلئے کسانوں کو تخم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی دے رہے ہیں۔
زرعی ماہرین کے مطابق مشروم کا شمار سبزیوں میں ہوتا ہے جس میں گوشت کی نسبت پروٹین کی مقدار زیادہ جبکہ کولیسٹرول کی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ مشروم قدرتی طور پر برسات میں اگتے ہیں لیکن عوام میں مشروم کی خوراک کی مقبولیت کی وجہ سے اب عام لوگ بھی گھریلو سطح پر مصنوعی طریقے سے اُگانا شروع ہوئے ہیں۔
ضلع چارسدہ سے تعلق رکھنے والے فرید خان گزشتہ تین سالوں سے اپنے گھر کے ایک بڑے کمرے میں مصنوعی طریقے سے مشروم اُگا رہے ہیں، جہاں پر انہوں نے بھوسے سے بھرے لفافوں میں مشروم کے تخم ڈالے ہوئے ہیں اور ان کے مطابق فصل کی پیداوار ایک ماہ کے اندر شروع ہو جاتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ تھوڑی سی سرمایہ کاری میں ان کی آمدن میں ہر سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے، کہتے ہیں کہ ایک پلاسٹک کے لفافہ سے تقریباً تین کلوگرام تک مشروم حاصل ہوتے ہیں جس پر صرف 100 روپے کا خرچہ آتا ہے۔
کاشتکار فرید خان کہتے ہیں ‘میں نے گزشتہ سال بارہ سو شاپرز میں مشروم اُگائے تھے جس سے 1800 کلوگرام تک مشروم حاصل ہوئے تھے مگر امسال بارہ سو لفافوں سے صرف دو ماہ میں 750 کلوگرام مشروم حاصل کئے ہیں اور امید ہے کہ اپریل تک ڈھائی تین ہزار تک پیداوار مل جائے گی۔ اب مارکیٹ میں ایک کلوگرام کی قیمت ساڑھے تین سو روپے تک ہے۔’

مشروم کی کاشت کیسے کی جاتی ہے؟

ماہرین نباتات کے مطابق مشروم کو دو طریقوں سے کاشت کیا جاتا ہے، ایک پولیتھین لفافوں میں اور دوسرا زیرکاشت زمین پر لیکن زمین پر کاشت کرنے کیلئے زمین کی دیکھ بھال اور اس کے لئے کھاد کی فراہمی ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے اس لئے آسانی کی خاطر لفافوں کا طریقہ کار اپنایا جاتا ہے۔
فرید خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے مشروم کی کاشت کی تربیت پشاور کی زرعی یونیورسٹی میں لی ہے جہاں پر انہیں تخم بھی دیئے گئے ہیں۔
کہتے ہیں کہ سب سے پہلے بھوسے کو ابالا جاتا ہے تاکہ اس میں موجود جراثیم کا خاتمہ ہو جائے اور پھر اس کو 4 بائی 12 انچ پلاسٹک کے لفافے میں ڈال کر اس کے اوپر مشروم کا تخم (سپان) چھڑک دیا جاتا ہے، لفافے کا منہ بند کرنے کے بعد ہوا کیلئے چھوٹے چھوٹے سُراخ چھوڑے جاتے ہیں اور اس لفافوں کو کمرے کی چھت سے ایک تار کے ذریعے لٹکا دیا جاتا جس کے 20 دن بعد مشروم اُگنا شروع ہو جاتے ہیں۔
ان کے مطابق ستائیسویں دن مشروم کو کاٹنا شروع کیا جاتا ہے اور ایک لفافہ تین دفعہ پیداواری صلاحیت رکھتا ہے جس سے ہر دس دن بعد پیداور حاصل کی جاتی ہے۔
کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ مشروم کو نہ صرف مقامی سطح پر فروخت کیا جاتا ہے بلکہ پنجاب اور اسلام آباد کے بڑے ہوٹلوں میں بھی سپلائی کیا جاتا ہے۔

زرعی یونیورسٹی پشاور مشروم کی کاشت میں آپ کی مدد کیسے کر سکتی ہے؟

زرعی یونیورسٹی پشاور میں گزشتہ دو عشروں سے مشروم کی گھریلو سطح پر پیداوار بڑھانے کی خاطر ایک لیبارٹری قائم کی گئی ہے جہاں پر مشروم کی دو قسم کے تخم پیدا کئے گئے ہیں جن میں آئیسٹر اور بٹن سپان شامل ہیں۔
زرعی یونیورسٹی میں لیبارٹری کے انچارج ڈاکٹر سرتاج عالم کا کہنا ہے کہ یہاں سے کاشتکار فی کلوگرام سپان (تخم) 12 سو روپے میں حاصل کرسکتے ہیں لیکن سپان دینے کے بعد کاشتکاروں کو مشروم کی کاشت کی ٹریننگ بھی دی جاتی ہے۔
ڈاکٹرسرتاج عالم کہتے ہیں کہ مشروم کی کاشت کیلئے کم جگہ اور کم سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے، ‘اگر دیکھا جائے تو خیبرپختونخوا میں زرعی زمینیں کمرشل پلاٹس میں تبدیل ہوتے ہیں جس سے خوراکی اشیاء کی پیداوار میں کمی واقع ہوجاتی ہے تو ایسے حال میں ہم کم جگہ اور کم خرچ میں مشروم سے ذریعہ آمدن بڑھا سکتے ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں دو قسم کے مشروم اُگائے جاتے ہیں جن میں آئسٹر اور بٹن شامل ہیں۔ انکے مطابق آئسٹر کو پلاسٹک لفافوں اور بٹن کو زمین میں کاشت کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر سرتاج نے عوام کو کھلی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی مرد، خاتون حتٰی اگر بچے بھی اسکی کاشت کرنا چاہتے ہیں تو وہ یونیورسٹی سے تخم لینے اور تربیت لینے کیلئے آسکتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں مشروم کے تقریباً 1500 اقسام پائے جاتے ہیں جن میں سے کچھ کھانے کے قابل ہوتے ہیں اور کچھ نہیں۔
پاکستان میں کھانے کے قابل مشروم کی 56 اقسام ہیں جن میں 44 خیبرپختونخوا، چار بلوچستان، تین سندھ، پانچ بنجاب میں پائے جاتے ہیں لیکن ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ مشروم میں سے زیادہ تر زہریلی ہوتے ہیں جن کی پہچان عام لوگوں کیلئے ممکن نہیں ہے اور اکثر لوگ اس کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

 

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button