قومی و عالمی سطح پر نام کمانے والے لوئر دیر کے کھلاڑی برکت اللہ کو کسی مسیحا کی تلاش ہے
وسیم سجاد
لوئر دیر سے تعلق رکھنے والے میراتھن (لمبی دوڑ) کے کھلاڑی برکت اللہ 2017 میں دبئی میں منعقدہ مراتھن ریس کے 38 ہزار کھلاڑیوں میں 18ویں پوزیشن حاصل کرنے کے باوجود سپانسر ڈھونڈنے کے لئے سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔
لوئر دیر کے علاقے کنڈرو پایان کے رہائشی برکت اللہ نے 2011 میں پروفیشنل رنر (دوڑنے والا) کے طور پر اپنے کرئیر کا آغاز کیا۔ ان کے کرئیر کا آغاز بھی بڑے انوکھے انداز میں ہوا جب 2010 کے سیلاب نے ان کے رنر بننے کی راہ ہموار کی۔ ہوا کچھ یوں کہ سیلاب کی وجہ سے دریائے پنجکوڑہ میں پانی کی سطح بڑھنے سے ان کے گاؤں کے فٹ بال گراؤنڈ پر ریت جمع ہو گئی تھی جہاں وہ روازنہ سہ پہر کے وقت کھیلنے جایا کرتے تھے۔ اس ریتلے میدان پر ننگے پاؤں دوڑنے کا انہیں چسکا پڑ گیا، اور اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
شروع شروع میں وہ ننگے پاؤں دوڑتے رہے تاہم بعدازاں انہوں نے ایک سیکنڈ ہینڈ دکان سے ایک جوڑا جوتے خرید لئے۔ سردی یا گرمی سے بے نیاز وہ روزانہ صبح سویرے اٹھتے اور مین روڈ پر 21 کلومیٹر کی دوڑ لگاتے اور منڈا اور تیمرگرہ کی جی ٹی روڈ پر واپس مڑ جاتے تھے۔
درایں اثناء جبکہ وہ تن تنہا پریکٹس میں مصروف رہتے تھے، وہ چار مرتبہ پاک آرمی کے زیر اہتمام مقابلوں کے فاتح رہے۔ اس کی وجہ سے وہ مقامی بڑوں کی نظروں میں آ گئے۔ 2017 میں سلیم اللہ نامی ایک مقامی بڑے نے انہیں دبئی میراتھن ریس کے لئے سپانسر کیا جہاں انہوں نے اڑتیس ہزار کھلاڑیوں میں اٹھارہویں پوزیشن حاصل کی۔
حکومتی بے حسی کا شکار کھلاڑی
برکت اللہ مقامی بڑوں کی سپورٹ کو سراہتے ہیں، جب بھی جہاں بھی انہیں ضرورت پڑی، انہیں ان کی حمایت حاصل رہی تاہم ضلعی سپورٹس آفس سے وہ قدرے ناخوش ہیں۔ بقول ان کے سپانسرشپ کے لئے ان کی بار بار گزارش کے باوجود انہیں کوئی جواب نہیں ملا۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ ڈویژن کی سطح پر جبکہ وہ اپنے ضلع کی نمائندگی کررر رہے تھے ضلعی سپورٹس دفتر نے انہیں ان کا یومیہ مشاہرہ مبلغ 6 سو روپیے بھی نہیں دیئے، ” ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر (ڈی ایس او) نے مجھے کٹ تک نہیں دی۔” انہوں نے بتایا۔
اگرچہ برکت اللہ اپنے خواب کی تعبیر کے لئے پرعزم ہیں تاہم درکار فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث وہ تھوڑی بہت تشویش میں مبتلا ضرور ہیں، ” 2017 میں دبئی میراتھن کے لئے پریکٹس کرتے وقت میرے پاؤں سوج گئے تھے۔” بقول ان کے وہ جب ڈاکٹر کے پاس گئے تو انہیں سڑک پر دوڑنے سے منع کیا گیا۔
ڈی ایس او ابرار احمد وسائل کی عدم دستیابی بارے تو کچھ بتا نہیں پائے البتہ انہوں نے یہ ضرور کہا کہ برکت اللہ کی مدد یا تعاون کے لئے لوئر دیر میں میراتھن رنرز نہیں تھے۔
اگرچہ ڈی ایس او برکت اللہ کی کامیبایوں سے آگاہ تھے تاہم کون برکت اللہ کو سپانسر کر رہا تھا اس سے وہ قطعی طور پر لاعلم تھے۔ انہوں نے بتایا کہ برکت اللہ کو سپیشل گرانٹ دینے کیلئے وہ ان کا کیس لوئر دیر کے ڈپٹی کمشنر وک پیش کریں گے۔ اس کے علاوہ انہوں نے بتایا کہ ڈی ایس او کے لئے مختص بجٹ ناکافی ہوتا ہے جس سے انہیں کئی کھیلوں کا انتظام کرنا ہوتا ہے، ”اس معاملے کو دیکھیں اور متعلقہ حکام کے ساتھ اٹھائیں گے۔”
برکت اللہ کے بارے میں مقامی بڑے کیا کہتے ہیں؟
کچھ مقامی بڑوں نے بتایا کہ برکت اللہ میں اتنا ٹیلنٹ اور لیاقت ہے کہ وہ بین الاقوامی مقابلے جیت سکتا ہے تاہم حکومت اور سپورٹس آفس دونوں انہیں سنجیدہ نہیں لیتے۔
خیال رہے کہ برکت اللہ قومی سطح پر اب تک کئی مقابلوں میں حصہ لے چکے ہیں۔ کراچی میں حال ہی میں منعقدہ نیشنل گرین میراتھ ریس میں ساتویں پوزیشن حاصل کی ہے۔ اس کے علاوہ اسلام آباد میں امسال منعقدہ مقابلوں میں وہ پانچویں نمبر پر آئے تھے۔ اس کے علاوہ جیسا کہ ذکر کیا جا چکا کہ دبئی مقابلوں میں انہوں نے اٹھارہویں پوزیشن حاصل کی تھی۔ قابل ذکر امر یہ بھی ہے کہ ان تمام مقابلوں میں انہوں نے خود یا سلیم اللہ کی طرح کے مقامی بڑوں کے تعاون سے حصہ لیا۔ انہوں نے حکومتی و نیم حکومتی اداروں سے استدعا کی کہ انہیں سپورٹ کریں تاکہ وہ (کامیابیوں کا) یہ سفر جاری رکھ سکیں۔