پاکستانی ڈراموں میں خواتین کو کمزور دکھایا جاتا ہے لیکن پھر بھی خواتین ان کو پسند کرتی ہیں
سدرہ آیان
پاکستانی ڈرامے عوام کے لیے آکسیجن کی طرح ہے جیسے جیسے وہ ڈرامے دیکھتے ہیں انھیں سانس ملتی رہتی ہے اور ان ڈراموں سے سانس لینے والے عوام میں ایک بڑا حصہ خواتین کا ہے۔ ان ڈراموں کا موضوع بھی خواتین ہی ہوتی ہیں ، ان میں خواتین ہی کی براہ راست بے عزتی ہوتی ہیں انہیں کو کمزور دکھایا جاتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان ڈراموں کو پسند کرنے والی اور سپورٹ کرنے والی بھی خواتین ہی ہوتی ہیں۔
پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری ہماری نسلوں کو ہماری ثقافت منتقل نہیں کر رہی بلکہ ہمارے ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے کہ عورت وہ ہی اچھی ہوتی ہے جو گھروں میں بیٹھ کر گھر والوں کے ظلم و ستم برداشت کرتی ہے۔ اگر لڑکی اپنے حق کے لیے آواز اٹھائے تو پھر وہ زبان دراز ، جاہل ، بد تمیز ، بے حیا ، بے شرم اور بدکردار جیسے القابات سے نوازی جاتی ہے اور جو لڑکی نڈر ہو اپنا حق مانگے تو سب گھر والے اس سے منہ موڑ لیتے ہیں ، بعض کو طلاق دی جاتی ہے۔
اسلام آباد میں ڈی ڈبلیو کی جانب سے پاکستان کے مختلف علاقوں سے صحافیوں کو دو روزہ ٹریننگ دینے کے بعد دو روزہ کانفرنس منعقد ہوئی ۔ اس چار دن میں مختلف موضوعات کو زیر بحث لایا گیا جس میں میرے پسندیدہ موضوعات میں سے ایک پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری اور دوسرا جینڈر تھا.
اس ٹریننگ میں سینئر جرنلسٹ کاشف عباسی ، طلعت حسین ، تنزیلہ مظہر اور ٹرانس کمیونٹی سے ٹرانس عائشہ مغل اور انکے علاوہ ملک بھر سے مختلف کمیونیٹیز کے لوگوں نے شرکت کیں۔ تنزیلہ مظہر نے اپنے سیشن میں پاکستانی ڈراموں کا ذکر کیا کہ کیسے پاکستانی ڈراموں میں عورت کو کمزور اور کمتر دکھایا جاتا ہے اوریہ چیزیں بیٹیوں کے لیے اتنی نہیں ہوتی جتنی بہو کے لیے ہوتی ہے اور یہی چیزیں ہماری نسلوں میں وقت کے ساتھ ساتھ مضبوطی سے جڑیں گھاڑ رہی ہے، اگر ہم غور کریں تو ہمارے لوگ بھی ویسا ہی رویہ اپنائے ہوئے ہیں ، ساس نے ڈراموں والی ساس کا کردار اوڑھ لیا ہے اور بہوؤں نے ڈراموں والی بہوؤں کا کردار اوڑھ لیا ہے.
ہماری بہوئیں بھی خود کو اتنا ہی کمزور سمجھنے لگی ہے جتنا پاکستانی ڈراموں میں انہیں کمزور دکھایا جاتا ہے۔ ساس چاہتی ہے فرمانبردار بہو ملے جو اسکے بیٹے کا خیال رکھے اسکے دوسرے بیٹوں بیٹیوں کا خیال رکھے اسکا اور اسکے شوہر کا خیال رکھیں صبح اٹھ کر ناشتہ بنا کر سب کو دیدے، پھر برتن اکٹھے کرکے کچن صاف کرے پھر گھر کی صفائی ستھرائی کریں ، آٹا گوندھے ،کپڑے دھوئے پھر لنچ بنائے پھر چائے اور شام تک پھر اسکی صفائی ستھرائی کرکے شام کا کھانا بنائے ۔ اگر واقعی یہ سارے کام ایک بہو خوش دلی سے کر سکتی ہے بنا تھکے ہارے بنا کوئی گلہ شکوہ کیے تو خدا سب کو ایسی بہوئیں دیں اور پھر تو میں خود بھی ایسی ہی بہو کی ڈیمانڈ کرتی ہوں کیونکہ اٹھائیس انتیس سال بعد میرا بیٹا بھی جوان ہوگا شائد کچھ لوگ اس سے متفق ہو کہ ہاں یہ سارے کام ایک بندہ کرسکتا ہے اور کچھ لوگ متفق نہیں بھی ہوسکتے۔
میں نے ایک ڈرامہ دیکھا تھا ”جینا دشوار سہی” اس ڈرامے کا نام تھا اس میں سوتیلی بیٹی یہ سب کام کرتی رہتی تھی اب وہ تو سب کچھ سکرپٹڈ تھا، اریج فاطمہ جو اس ڈرامے میں سوتیلی بیٹی کا رول نبھا رہی تھی ہوسکتا ہے اس نے آف سکرین جاڑو کبھی ہاتھ میں اٹھائی ہی نہ ہو لیکن یہ ہماری ماں ڈرامے میں اسکے ہاتھ میں جاڑو دیکھ کر اس سے ہمدردی جتاتی اور ہمیں خوب ڈانٹتی۔ مجھے اریج فاطمہ کے کاموں کی مثالیں ملتی ، میری چھوٹی تیز طرار بہن کو اسکی خاموشی، بے چارگی اور معصومیت و مظلومیت کی مثالیں ملتی۔
اب ڈراموں کے پیچھے حقیقی منظر کیا ہے وہ تو کسی کو نہیں دکھتا تھا لیکن ڈراموں میں جو جو دکھایا جاتا وہی ہماری زندگی اجیرن کرنے کا ذریعہ بن جاتا ۔ اب ایک مدت سے ہمارے پکے کانوں کو سکون ملا ہے اور اسکی وجہ یہ ہے گھر میں ڈراموں کے بجائے خبریں چلنے لگی ہے ماں وقت کے ساتھ ساتھ کمزور ہوتی بینائی کی وجہ سے ٹی وی دیکھنا چھوڑ گئی لیکن شائد اب بھی بہت سے گھروں میں چلتے ڈراموں کی وجہ سے کچھ لڑکیوں کے لباس میں منفی تبدیلی ، بیٹوں کی رویوں میں منفی تبدیلی ، سکول پڑھنے والے لڑکیوں کا بدتمیز ،بےحیا اور بے شرم والا لقب اور گھر سے بھاگنے والی لڑکی کو معاف کرکے گلے لگانے والے سین ،یونیورسٹیوں کو لڑکیوں کے لیے غیر محفوظ جگہ اور گھر سے بھگا کر شادی کرنا صحیح اینگل سے دکھانا اب بھی ہوتا ہوگا۔
پاکستانی ڈراموں میں شائد وہی دکھایا جارہا ہے جو لوگ دیکھنا چاہتے ہیں لیکن انکو پھر ذہن میں یہ بھی رکھنا چاہیے کہ یہ صرف وقتی انجوائے منٹ نہیں ہوتی بلکہ یہ کہیں چپکے سے ہماری نسلوں کی رگوں میں اترتا ہوا زہر ہے جو سیدھا جاکے انکی سوچ کو زہریلا بنا دیتا ہے جو کہ ایک خوشحال معاشرے کا ضامن بلکل بھی نہیں ہے۔