سیاست

ایڈز ایک شرمناک مرض مگر یہ بیماری روئے زمین پر پیدا کیسے ہوئی؟

ڈاکٹر جمشید نظر

کورونا وباء سے قبل دنیا کی دس خطرناک وباؤں میں سے ایک وباء ایچ آئی وی ایڈز ہے جس کا ابھی تک مکمل طور پر علاج دریافت نہیں ہو سکا۔

یہ بیماری روئے زمین پر کیسے پیدا ہوئی؟ اس کے متعلق کئی تحقیقات سامنے آئی ہیں۔ کچھ طبی تحقیقاتی اداروں کی رپورٹ کے مطابق ایڈز سن 1981 میں امریکہ اور کیلیفورنیا میں دریافت ہوا جہاں ہم جنس پرست رہتے تھے جن کی بے راہ روی کی وجہ سے ایڈز نے جنم لیا اور پھر انہی افراد کے ذریعے ایڈز دنیا میں پھیلا۔

این بی سی کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایڈز اور ایچ آئی وی کا مرض سب سے پہلے سن 1970 میں نیو یارک کے ہم جنس پرستوں کے ذریعے پھیلا کیونکہ ایڈز کا پہلا مریض ایک ہم جنس پرست تھا۔ ہم جنس پرست مریض چونکہ پیشے کے لحاط سے ایک فلائٹ اٹنڈنٹ تھا اور افریقہ سے آیا تھا اس لئے خیال کیا جاتا ہے کہ ایڈز کا مرض وہ افریقہ سے ساتھ لے کر آیا ہے۔

اس تحقیقاتی رپورٹ کے برعکس یونیورسٹی آف ایریزونا اور وائرس کے ارتقاء کے ماہر ”مائیکل ووروبے” کا دعوی ہے کہ ایچ آئی وی کی جائے پیدائش اور مرکز نیویارک ہے۔ کچھ سائنس دانوں اور تحقیق کاروں نے اندازہ لگایا ہے کہ سینکڑوں سال پہلے افریقہ کے بندروں میں یہ بیماری موجود تھی جو سبز بندروں کے ذریعے پھیلی اور پھر چمپینزی کے ذریعے یہ بیماری انسانوں میں منتقل ہوئی۔ زیادہ تر کا ماننا ہے کہ ایچ آئی وی ایڈز کی وباء 1980 کی دہائی میں منظر عام پر آئی لیکن یونیورسٹی آف آکسفورڈ اور بیلجیئم کی یونیورسٹی آف لوئن کی تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ نے حیران کن انکشافات کئے ہیں۔

ان کی رپورٹ کے مطابق 1920 کی دہائی میں شہر ”کینشاسا” جو کہ بیلجیئم کانگو کا حصہ تھا۔ یہ شہر بہت بڑا تجارتی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ ہم جنس پرستی اور اس کی وجہ سے بیماریوں میں گھرا ہوا تھا۔ ماہرین کادعویٰ ہے کہ ایڈز 1980 میں منظر عام پر آئی لیکن اس کا وجود 1920 کی دہائی میں ”کنشاسا” شہر میں موجود تھا۔ یہ وباء ”کینشاسا” سے ”برازیل” اور ”کانٹا گا” جیسے علاقوں سے پھیلتے پھیلتے اب دنیا بھر میں پھیل چکی ہے۔

اقوام متحدہ کے ایڈز سے متعلق ادارے ”یو این ایڈز” کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق سن 2000 میں دنیا بھر میں 24 ملین افراد ایڈز میں مبتلا تھے جبکہ سال 2020 یہ تعداد 38 ملین تک پہنچ چکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اب ایڈز کے نئے کیسوں میں کمی آئی ہے۔ سن 2000 میں ایڈز کے نئے کیسز کی تعداد 2.7 ملین تھی جو سن 2020 کم ہو کر 1.7 ملین ہو گئی ہے جبکہ اس مرض کے باعث اموات کی تعداد بالترتیب 1.4 ملین سے کم ہو کر 6 لاکھ 90 ہزار ہو گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق مشرقی اور جنوبی افریقہ کے ممالک میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد 15 ملین ہے جو دنیا کے دیگر خطوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔

گلوبل ایڈز اپ ڈیٹ 2020 کے مطابق یو این ایڈز کا کہنا ہے کہ کمبوڈیا، میانمار، تھائی لینڈ اور ویتنام میں ایچ آئی وی کے انفیکشن میں کمی واقع ہوئی ہے تاہم پاکستان اور فلپائن میں انفیکشن میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایڈز کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سال 2019 کی رپورٹ میں بھی انکشاف کیا گیا تھا کہ دنیا میں سب سے زیادہ ایچ آئی وی پھیلنے کی شرح پاکستان میں ہے تاہم اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ایڈز کی ایک تازہ رپورٹ میں امکان ظاہر کیا ہے کہ 2030 تک دنیا بھر میں ایڈز کی وبا پر قابو پا لیا جائے گا۔

آج سے دس سال پہلے ایڈز کا علاج ناممکن سمجھا جاتا تھا لیکن اب اس کے علاج کے حوالے سے نمایاں پیش رفت ہوئی ہے اگرچہ ایڈز کا مکمل علاج دریافت نہیں ہو سکا مگر نئے اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ ایڈز کے علاج کے لئے عالمی پروگرام 90-90-90 پر عملدرآمد کرتے ہوئے 18 ملین سے زائد افراد کی جانیں بچائی جا چکی ہیں۔

اس سلسلے میں اینٹی وائرل دواوں سے مدد لی جا رہی ہے اور 15.7 ملین افراد کا علاج کیا گیا جبکہ انہی دواؤں کے استعمال سے ایڈز کے مرض میں مبتلا ماؤں کے2.6 ملین بچے ایچ آئی وی ایڈز کے بغیر تندرست پیدا ہوئے ہیں۔ آسٹریلیا، کمبوڈیا اور تھائی لینڈ میں کامیاب ٹیسٹنگ اور علاج کے پروگرامز کی وجہ سے سن 2010 کے بعد سے ایڈز سے ہوئی اموات میں 29 فیصد کمی آئی ہے، ان ممالک نے 90-90-90 کے اہداف حاصل کر لیے تاہم پاکستان، افغانستان اور فلپائن میں ایڈز سے وابستہ اموات کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے جو کہ تشویش ناک ہے۔

”سیزنگ دی مومنٹ” نامی رپورٹ میں کہا گیا کہ نیڈل سرنج پروگرام کی پاکستان، انڈونیشیا، ملائیشیا اور تھائی لینڈ میں آگاہی بہت کم ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش، نیپال، انڈونیشیا اور تھائی لینڈ میں اوپی آئیڈ سبسٹی ٹیوشن تھراپی سروسز یا تو دستیاب نہیں ہیں یا پھر اس کی کوریج صرف 10 فیصد یا اس سے بھی کم ہے۔ یو این رپورٹ کے مطابق سال 2010 میں پاکستان میں ایک ہزار مریضوں میں ایچ آئی وی کی تشخیص کی شرح 0.08 فیصد تھی جو سال 2018 میں بڑھ کر 0.11 فیصد ہو گئی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button