باجوڑ میں اسلحہ سستا ہونے کی وجوہات کیا ہیں؟
زاہد جان
دنیا میں اسلحہ اور مہلک ہتھیاروں کے بنانے کا یہ منطق اور جواز پیش کیا جاتا ہے کہ یہ ہتھیار دشمن سے حفاظت کے لیے بنائے گئے ہیں لیکن تاریخ انسانی اور خصوصا بیسویں اور اکیسویں صدی ثابت کر رہی ہے کہ "پستول” سے لے کر "ایٹم بم” تک کے تمام ہتھیاروں نے امن اور حفاظت کی بجائے بڑے پیمانے پر انسانیت کو تباہ کیا ہے۔ تباہی کا یہ عمل ایک "گاؤں” سے لے کر پوری "دنیا” تک پھیل گیا ہے اور اب تک جاری ہے۔ ان ہتھیاروں کے تباہ کن اثرات کے پیش نظر ہم بڑے وثوق کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ان ہتھیاروں نے اپنے وجود کا اخلاقی جواز , منطق اور فلسفہ کھو دیا ہے، اب برائے نام حفاظت کے نام پر یہ ہتھیار امن, تحفظ اور انسانیت کی تباہی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
ضلع باجوڑ میں اسلحہ کا کاروبار کئی صدیوں سے ہوتا آرہا ہے۔ خار بازار میں شینگس مارکیٹ اس حوالے سے بہت تاریخی حیثیت رکھتی ہے جہاں پر آج کل بھی دو درجن تک اسلحہ کی دکانیں ہیں۔اس طرح پشت بازار, ناواگئی بازار اور عنایت کلی بازار بھی اسلحہ کاروبار کے لیے بڑے مشہور ہیں جہاں پر درجنوں دکانوں میں مختلف قسم کا اسلحہ فروخت ہوتا ہے۔
خار بازار میں اسلحہ کاروبار سے وابستہ ایک تاجر نے دعوی کیا ہے کہ ضلع باجوڑ میں اسلحہ کاروبار آج بھی ایف سی آر دور کے پولیٹیکل ایجنٹ کے این او سی پر چلتا ہے۔ان کے بقول فاٹا انضمام کے بعد بھی اسلحہ کاروبار سے وابستہ دکانداروں کے پاس وہ پرانا اجازت نامہ ہے۔ اس دور میں اس معاہدے کی کوئی تجدید نہیں کرائی گئی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اسلحہ کاروبار بہت خطرناک اور حساس معاملہ ہے خاص طور پر سابقہ فاٹا میں, جہاں پر دہشت گردی, ٹارگٹ کلنگ اور انتہاپسندی کا ایک خوفناک دور رہا ہے اور یہ خطرات آج بھی لاحق ہیں۔
جب سے فاٹا کا انضمام ہوا ہے، یہاں کا قانون بدل گیا ہے، یہاں کا انتظامی ڈھانچہ تبدیل ہوگیا ہے، پرانے معاہدوں اور اجازت ناموں کی, اگر انضمام کے بعد انتظامیہ اورقانون نافذ کرنے والوں کی طرف سے تجدید نہیں ہوئی ہے تو انضمام کے بعد ان چیزوں کی قانونی حیثیت بھی ختم ہوکر رہ گئی ہے۔
اس تمام بحث اور پس منظر کو لے کر فاٹا انضمام کے بعد بھی اور آج کل کے حالات و واقعات کے حساب سے بھی یہ سوال بہت درست اور قانونی ہے کہ یہ خطرناک کاروبار پرانے دور (پولیٹیکل ایجنٹ دور)کے این او سی پر کیوں دھڑا دھڑ چل رہا ہے؟
انضمام کے بعد ان معاہدوں کی کیا قانونی حیثیت رہ گئی ہے؟
انضمام کے بعد یہ کاروبار کیوں ریگولرائز نہیں کیاجارہا ہے؟کیوں قانون کے دائرے میں نہیں لایا جارہا ہے؟
اسلحہ کے ایک مقامی تاجر نے مزید کہا کہ آج کل "اسلحہ مارکیٹ” افغانستان کے حالات کے تناظر میں گر چکی ہے۔ خصوصا مختلف نام اور قسم کا پستول اوسطاً تیس چالیس ہزار روپے سستا ہوگیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ اسلحہ امپورٹڈ چیزیں ہیں اور تجارتی اصولوں اور حکومت کے دعووں کے مطابق امپورٹڈ یعنی درآمد شدہ مال اور چیزیں مہنگی ہوتی ہیں۔ان اصولوں اور دعووں کے برعکس, دہشت گردی, انتہاپسندی اور ٹارگٹ کلنگ سے شدید طور پر متاثر اور مفلوج قبائلی اضلاع میں اسلحہ اور خصوصاً پستول کی سستی قیمت نے تاجروں کو بہت متاثر کیا ہے۔