عوام کی آوازلائف سٹائل

منی دبئی کے نام سے مشہور شمالی وزیرستان میں کاروباری سرگرمیاں ماند کیوں پڑ رہی ہیں؟

مزمل داوڑ

آپریشن ضرب عضب سے قبل شمالی وزیرستان میں خراب حالات کی وجہ سے بم دھماکے ، ٹارگٹ کلنگ ، اغوا برائے تاوان ودیگر مشکلات کے باوجود معمول کے مطابق کاروبار جاری تھا۔ مہمند ، باجوڑ ، پشاور ، مردان اور ملک کے مختلف علاقوں سے تاجر برادری شمالی وزیرستان میں اپنے کاروبار کرنے میں مصروف تھے کہ اچانک حالات سنگین صورتحال اختیار کرگئے اور سارے خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے 16جون 2014 کو شمالی وزیرستان میں حکومت کی طرف سے آپریشن ضرب عضب کا اعلان ہوا۔
آپریشن ضرب عضب کے دوران شمالی وزیرستان کی اکثر بازاریں مسمار ہو چکی تھی، تین سال گزرنے کے بعد آئی ڈی پیز کی وطن واپسی شروع ہوئی آہستہ آہستہ کاروبار اور دکانیں بنانے پر کام شروع ہوا۔
ضرب عضب سے قبل میرعلی بازار میں ہزاروں کی تعداد دکانیں موجود تھی اور اب ضرب عضب آپریشن کے بعد بھی ہزاروں کی تعداد دکانیں موجود ہیں اب بھی کاروبار بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے لیکن ٹارگٹ کلنگ اور حالات کی وجہ سے ایک بار پھر کاروبار میں مسائل پیش آرہے ہیں۔

کاروبار کے حوالے سے تاجر برادری سے تعلق رکھنے والے لالا داوڑ نے ٹی این این کو بتایا کہ ضرب عضب سے پہلے بازار میرعلی میں تقریباً چار ہزار کم وپیش دکانیں تھیں لیکن آپریشن کے دوران ساری دکانیں ملیا میٹ ہوگئی۔ ضرب عضب سے پہلے بازار میں صرف مقامی لوگ کاروبار نہیں کرتے تھے بلکہ ضلع بنوں ضلع لکی مروت کے علاوہ ،کشمیر ، پنجاب اگر یوں کہا جائے کہ پاکستان کے سارے صوبوں کے تجار یہاں روزی روٹی کماکر اپنے بچوں کا پیٹ پال رہے تھے تو کہنا غلط نہ ہوگا۔
اب چونکہ بازار میرعلی نئے سرے سے بنایا گیا ہے پہلے کی نسبت دکانیں بھی زیادہ ہیں لیکن یہاں تجار کیساتھ ساتھ عام عوام خوش نہیں، بازار ھذا میں کاروباری سرگرمیاں و خوشیاں ماند پڑنے کی اصل وجہ یہاں کی غیر یقینی صورتحال ہے۔
انہوں نے کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر یہاں ٹارگٹ کلنگ ہورہی ہے، میرعلی بازار میں ماضی کے قریب میں نامعلوم افراد کی جانب سے کئی دکانوں کو رات کی تاریکی میں آگ لگا کر خاکستر کردیا گیا ابھی تک کسی مجرم کو بھی نہیں پکڑا گیا ہے، کئی روز قبل مین بازار میرعلی میں پی ٹی سی ایل کے کیبنٹ کو نامعلوم افراد نے آگ لگا کر بازار میرعلی کے علاوہ آس پاس کے دیہات کے باسیوں کو انٹرنیٹ اور مواصلاتی نظام سے محروم کردیا، ضلعی انتظامیہ سے گزارش کی جاتی ہے کہ میرعلی بازار کو سکیورٹی دیکر لوگوں کے احساس محرومی کو ختم کریں اور میرعلی بازار کے کاروباری حضرات و لوگوں پر رحم فرماکر ماضی کی طرح میرعلی بازار کی پرانی رونقیں بحال کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔

پی ٹی آئی کے فائنانس سیکرٹری اور سینئر رہنماء قدیر داوڑ نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب سے پہلے شمالی وزیرستان کو کاروبار کے لحاظ سے منی دبئی کے نام سے پکارا جاتا تھا کیونکہ افعانستان کے راستے سے جاپان ، جرمنی ، ملائشیاء ، چائنہ ، روس اور دیگر ممالک سے زندگی کا تمام سامان بہت مناسب ریٹ پر شمالی وزیرستان سمیت تمام قبائلی اضلاع میں باآسانی پہنچایا جاتا تھا جو بعد میں تاجر مناسب منافع دیکر خریدتے تھے اور پورے ملک میں معیاری غیر ملکی ساختہ سامان باآسانی دستیاب ہوتا تھا لیکن آپریشن ضرب عضب کے بعد سب کچھ تباہی کے دہانے پہنچ کر شمالی وزیرستان کی تاجر برادری دیوالیہ ہوگئی ہیں اور انکے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں کاروبار خراب ہونے کی درجہ ذیل وجوہات ہیں غلام خان کے راستے کی بندش  ٹیکس فری زون کے باوجود غلام خان پر کسٹم ڈیوٹی کا حصول، آپریشن ضرب عضب سے تاجر برادری کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹنا اور نامناسب امن و امان کی وجہ سے ملک کے دوسرے حصے کے تاجروں کا نہ آنا۔

تاجر برادری سے تعلق رکھنے والے شفقت داوڑ کا کہنا تھا کہ آپریشن ضرب عضب جون 2014 میں عسکری اداروں نے شروع کیا تھا اس سے پہلے میرعلی بازار کے ساتھ ساتھ گاوں گاوں میں دکانیں موجود تھی جو کہ 15000 سے بھی زیادہ تھی جس میں ہرمز پتسی اڈہ اور عیدک بازار بھی موجود تھے آپریشن کے مکمل ہونے اور آئی پیز کی واپسی کے بعد تاجر برادری میرعلی نے احتجاجی جلسے جلوس شروع کئے تو 3706 دوکانداروں کو معاوضہ دیا گیا  مگر اب تک تقریباً 10 ہزار سے زیادہ دوکاندار معاوضے سے محروم ہے۔ انہوں نے کہا کہ کہا گیا تھا کہ پہلے مرحلے میں میرعلی میرانشاہ بازار جو کہ بڑے بازار ہیں کو معاوضہ دیا جائے گا دوسرے مرحلے میں گاوں گاوں میں موجود کاروباری حضرات اور تیسرے مرحلے میں نان لوکل کاروباری حضرات کو مالی امداد دی جائے گی مگر اب تک پہلا مرحلہ بھی مکمل نہیں ہوا اور اب بھی ہزاروں کی تعداد میں میرعلی بازار کے کاروباری حضرات معاوضے کے لیے ترس رہے ہیں۔

دوسری جانب ضرب عضب سے قبل اور ضرب عضب کے بعد کاروبار کے حوالے سے ڈپٹی کمشنر شمالی شاہد علی خان نے ٹی این این کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے کاروبار کے دو کیٹیگریز ہیں ایک بازار جیسے میرانشاہ میرعلی اور رزمک اور دوسرا ہمارا غلام خان بائیو لیٹرل اور ٹرانزٹ ٹریڈ ہے اگر میرانشاہ میرعلی اور رزمک کو دیکھا جائے تو وہ تو اپنے پہلے پوزیشن پر جاری وساری ہیں۔ میرعلی بازار کو سو فیصد ادائیگی ہوچکی ہے میرانشاہ معاوضہ کورٹ کیس کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے وہ بھی انشاء اللہ جلد از جلد ہوجائیگا، باقی اگر ٹرانزٹ اور بائیو لیٹرل ٹریڈ کی بات کی جائے تو وہ دوگنا ہوچکا ہے آپریشن ضرب عضب سے پہلے جب یہاں سے دو تین ٹریڈ وہیکل گزرتے تھے تو وہ اب بڑھ کر پانچ ساڑھے پانچ سو تک پہنچ چکے ہیں۔اسکے ساتھ ساتھ یہاں پر میرانشاہ اور غلام خان زیرو پوائنٹ پر مزید اپلوڈنگ پوانٹس کھل گئے ہیں جس سے روزگار کے مواقع بڑھ گئے ہیں۔


انہوں نے مزید کہا کہ کاروباری سرگرمیاں بڑھانے کیلئے بائے لیٹرل ٹریڈ پر ہمارا فوکس ہے ٹریڈ دوگنا ہوچکا ہے اس کے ساتھ ساتھ کمپنسیشن اور دیگر ایونٹس متعارف کرارہے ہیں جس میں سپیشل ایریا ڈیویلپمنٹ پروگرام منظور ہوچکا ہےجسمیں لائیوسٹاک ایگریکلچر اور دیگر سیکٹرز میں ہم ان پٹ دینگے۔ اس کے علاوہ بازاروں کے بیوٹی فیکیشن پراجیکٹ پر بھی کام جاری ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ہماری توجہ دیگر پروگرامز جیسے منرلز پر ہے جس میں چالیس کیسز اپروو ہوچکے ہیں جن میں سے چند پر کام بھی شروع ہوچکا ہے اور باقی پر بھی جلد کام شروع کیا جائیگا جس سے علاقے میں ترقی کی شرح بڑھ جائیگی۔
اسکے علاوہ انڈسٹریل سٹیٹ ہمارے شمالی وزیرستان کا ایک اہم پروجیکٹ ہے جس پر ہمارا کام جاری ہے اور آخری مراحل میں ہے جس سے شمالی وزیرستان کے 14 ہزار افراد کو روزگار ملے گا۔
انہوں نے بتایا کہ میرعلی بازار کے تاجروں کو اشیاء کے نقصانات کے مد میں ادائیگی ہوچکی ہے کچھ باقی ہیں وہ بھی جلد کردی جائے گی جبکہ لینڈ لاس اور بلڈنگ لاس کے بارے میں عوام کا مطالبہ ہے جس کو ہم نے وزیراعلی کو منظوری کیلئے بھیج دیا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button