عارف حیات
اچانک شام میں طالبان حکومت کی کابینہ کا اعلان کر دیا گیا، تمام محکموں کے نائب وزرا مقرر کیے گئے، نیوز کانفرنس میں نئی کابینہ کے ممبران سے ملاقات ہوئی جس میں کوئی بھی خاتون شامل نہیں تھی۔
کابینہ کی تشکیل کے بعد اگلے دن پنجشیر اور پھر قندوز جانے کا پلان ترتیب دیا۔ کارتی چار کے علاقہ میں رات گزاری، پلان کے مطابق پامیر سینما پہنچنا تھا کہ وہاں سے اگلی منزل کے لئے سفر شروع کروں۔ سڑک پر دوست کے ساتھ ٹیکسی سٹینڈ تک پیدل روانہ ہوا اور مسلسل موبائل پر پاکستان اپنے ہیڈ آفس سے رابطہ میں تھا، جاتے جاتے مختلف جگہوں پر بازاروں کے فوٹیجز بھی ساتھ ساتھ بناتا رہا۔
ایک چورا ہے تک پہنچا تو خواتین کا ایک بڑا جلوس سامنے سے گزر رہا تھا جنہیں اپنے مقررہ مقام تک پہنچ کر حقوق کے لئے احتجاج کرنا تھا۔ میں کان سے موبائل لگائے بات کر رہا تھا، اچانک سترہ اٹھارہ برس کا نوجوان طالب آیا اور مجھ سے موبائل چھینا۔ میرے دوست نے کہا "میلمہ دے خیر دے”، (مہمان ہے، خیر ہے) موبائل واپس کر دیں، طالبان سمجھ رہے تھے کہ جن کے ہاتھ میں موبائل ہیں یہ سب خواتین کے احتجاج کے فوٹیجز بنا رہے ہیں۔
طالب نے غضب ناک آنکھوں سے دوست کو دیکھا اور مجھے پیچھے آنے کو کہا۔ دوست کو اشارہ کیا تم یہاں سے نکلو میں سنبھالتا ہوں لیکن جیسے ہی دوسری طرف لپکا تو طالب نظر نہیں آیا، سوچا موبائل کی تو خیر ہے مگر یہاں سے نکلو، خاموشی سے نکلنے کی کوشش کی مگر دوسری جانب سے ایک اور ایک اسلحہ برادر طالب نے مجھے زور دار دھکا دے کر سڑک پر گرا دیا، جیسے ہی ہوش آیا تو ایک نئی بندوق کی نلی عین میرے سر کی اوپر تھی۔ "چرتہ تختی، خبیثہ”، (کہاں بھاگ رہے ہو خبیث) طالب چیخا۔ اس نے مجھے سڑک کے دوسرے کنارے گھسیٹ کر لیے جانے کی کوشش کی مگر میں اٹھا، اس نے مجھے قمیض کے کالر سے پکڑ لیا۔
میرا دماغ سوچنے سے قاصر تھا اور سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔ ادھر ادھر دیکھا تو ایک درجن سے زائد افراد کو لائن میں کھڑے دیکھا جن کو طالبان نے گھیرا اور کھڑا کر رکھا تھا۔ ایک سائیڈ سے طالب نے ہوا میں ڈنڈا لہراتے ہوئیے سب کو مارنا شروع کر دیا اور ایک ایک ڈنڈا دے مارا۔ مارتے مارتے وہ سب کو جہنمی قرار رہا دے رہا تھا۔ جیسے ہی نصف درجن بندوں کو چٹھی کا دودھ یاد دلانے کے بعد ڈنڈا ٹوٹ گیا تو لاتوں اور گھونسوں سے مزہ لینے کا دور شروع ہوا اور وہ اپنا تناؤ ہم پر نکالنے سے لطف اندوز ہو رہا تھا، ساتھ سب کو گالیوں اور لعن طعن سے بھی نوازتے رہے۔
یہی قیامت میرے سر پر بھی آن پہنچی اور مجھے پیٹ اور چھاتی کے درمیان ایسی زور دار لات دے ماری کہ محسوس ہوا جیسے میری پسلیاں ٹوٹ گئی ہوں۔ اب میں درد کے مارے پریشان تھا کہ ناک بہنا شروع ہو گئی۔ دوبارہ ہانپتے ہانپتے کھڑا ہوا تو کان پکڑنے کا حکم ملا، اب اس عمر میں اسی کلو وزن کے ساتھ کان کیسے پکڑیں، مرغا تو بن گیا مگر توازن برابر نہیں تھا۔
دوسرا ڈنڈا آیا اور ایک بار پھر مارنے کا عمل شروع ہو گیا۔ خیر اس بار ڈنڈا کمر پر لگا مگر درد دماغ میں محسوس ہوا۔ اب تین پولیس موبائل میں سب کو لاتیں اور تھپڑ مارتے بٹھایا گیا، میری باری آئی تو گاڑیاں فل ہو گئیں، راستے پر جاتا ہوا تیسری پولیس موبائل وین روک کر مجھے اکیلا اس میں بٹھایا گیا، اب طالبان نے ایک دوسرے کے ساتھ زبانی تکرار شروع کر دی، ایک گروہ نے کہا ہم نے بیٹھنا ہے دوسرے نے کہا ہم نے، مگر جو بھی بیٹھتا مجھے دس خوشی میں تھپڑ مار دیتا۔ خیر گاڑی روانہ ہو گئی اور جیسے مجھے مارنے کے لئے لے جا رہے ہوں، ایسا لگ رہا تھا۔
اب ان طالبان کو اپنا تھانہ ہی معلوم نہیں، بس گاڑی سڑکوں پر بے اختیار بھگا رہے تھے، بالآخر ایک پولیس چوکی میں اتارا مطلب گاڑی سے نیچے پھینکا۔ گردن سے پکڑ کر مجھے چوکی میں زمین پر پٹخ دیا۔ اب ایک طالب نے مجھے بالوں سے پکڑا جس کا ہاتھ میں نے پوری طاقت کے ساتھ بالوں سے ہٹا دیا، کیونکہ نیا نیا ہیئر ٹرانس پلانٹ کیا تھا جس کے ثمرات ابھی ملنے باقی تھے۔ جس پر دوسرے طالب نے مجھے کنپٹی پر بندوق کی بٹ سے مارا اور میں مرتے مرتے بچ گیا۔
اس وار کا نشان آج بھی میری کنپٹی پر ہے۔ مجھے لٹا کر اور دونوں پاؤں آسمان کی طرف کر کے دل کھول کر خوب مارا، چھاتی پر بھی دو تین لاتیں میرے نصیب میں شامل کر دیں۔ اللہ کے واسطے دیئے، دعائیں کیں مگر کسی بھی فریاد سے کام نہیں ہو رہا تھا۔ تھپڑ اتنے کھائے کہ اسلامی امارت کا ترانہ بھی یاد نہیں آ رہا تھا جسے سنا کر جان کی پناہ مانگوں۔
جب چھوڑ دیا اور لیٹے لیٹے میری آنکھ کھلی تو چوکی کی اونچی دیوار پر سابق حکومت کی ملی اردو نے لکھا تھا کہ "سر ورکوم خو سنگر نہ ورکوم”، یعنی جان دینے کے لئے تیار ہوں مگر مورچہ نہیں چھوڑوں گا۔ (جاری ہے)