”صحافی تو 24 گھنٹے ذہنی تناؤ میں ہوتے ہیں جو ان کی فیمیلی کو بھی متاثر کرتا ہے”
نسرین جبیں
”مجھے ایک فون کال آئی اور فون کرنے والے نے دھمکی آمیز انداز میں میرے نام کی تصدیق کرنے کے بعد کہنا شروع کیا، کہ مجھے علم ہے کہ تمھارے کتنے بچے ہیں اور کن سکولوں میں پڑھتے ہیں اور تمھارے پاس ایک موٹرسائیکل ہے جس پر تم آفس آتے جاتے ہوئے اور یہ تم تو جانتے ہی ہو کہ موٹرسائیکل پر ایکسیڈنٹ کروانا کتنا آسان ہے۔
مجھے سمجھ تو آ گئی تھی کہ مجھے اور میرے خاندان کو کس وجہ سے ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے لیکن میں نے اسے فوری جواب نہیں دیا اور فون بند ہو گیا۔ پھر رات کو میرے والد صاحب نے مجھے بلایا اور کہا کہ تم نے کون سی خبر غلط دی ہے اور کیوں دی ہے؟ میں نے انہیں تسلی کرائی کہ میں پوری تصدیق اور ثبوتوں کے ساتھ خبر دیتا ہوں ایسا کچھ بھی غلط نہیں کیا تو انہوں نے بتانا شروع کیا کہ دوپہر میں چند لوگ آئے تھے اور ان کا لہجہ ٹھیک نہیں تھا اور کہہ رہے تھے کہ اپنے بیٹے کو سمجھا دو کہ ہمارے خلاف خبریں نہ دے۔ میں نے ابو کو زیادہ تفصیل تو نہیں بتائی لیکن تسلی دی کہ ایسا کچھ نہیں ہے وہ لوگ پھر رابطہ کریں تو انہیں کہیں کہ مجھ سے خود بات کریں۔
میں بھی تو گوشت پوست کا انسان ہوں، احساسات، جذبات اور فیملی رکھتا ہوں، بچوں اور گھر والوں کی تکلیف کا سوچ کر مجھے بھی دکھ ہوتا ہے۔ میں نے اپنا دفتر آنے جانے کا راستہ ان دھمکی آمیز کالز اور والد کے سمجھانے پر بدل لیا اور بچوں کو بھی کچھ روز سکول نہیں بھیجا۔ گھر والوں کو کچھ نہیں بتایا۔ میں انہیں پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا، والد صاحب کی ہی پریشانی کافی تھی میرے لئے، وہ اس بزرگی کی عمر میں پریشانی کے عالم میں مجھے کہہ رہے تھے کہ یہ ملازمت چھوڑ دو کچھ اور کر لو جو میرے لئے ممکن نہیں تھا۔
میں نے دراصل ایک سرکاری محکمے میں غیرقانونی بھرتیوں کے خلاف خبر دی تھی جس کے بعد اس محکمے کے وزیر کے صاحبزادے ’’جوش‘‘ میں آ گئے اور انہوں نے مجھے ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا۔ پھر اگلے روز شام کو وہ میرے دفتر آ گئے اور میرے باس سے مل کر میری شکایت کی تو انہوں نے مجھے بلایا اور میں نے ان کے سامنے تمام ثبوت رکھ دیئے۔لیکن اس سارے واقعے میں ذہنی نفسیاتی طور پر بہت پریشانی سے گزرا؛ کام کا حرج ہوا، کارکردگی بھی متاثر ہوئی، گھر والے بھی میری پریشان حالت کی وجہ سے پریشان رہے، گھر کا ماحول سہما اور ڈرا ڈرا ہو گیا اور ہر کسی کو چپ لگ گئی۔
گھر کی رونق اور گہماگہمی میری وجہ سے متاثر ہوئی، بچوں کی تعلیم کا حرج ہوا لیکن میرا موقف تھا کہ میں ایک صحافی ہوں اور کسی ادارے کا پی آر او نہیں ہوں۔ میں بدعنوانی، کرپشن اور غیرقانونی کاموں کو سامنے نہیں لاؤں گا تو پھر میں کچھ اور کام کر لوں، صحافت چھوڑ دوں جو کہ میرے لئے ممکن نہیں۔”
یہ کہنا تھا فری لانس جرنلسٹ لحاظ الدین کا جو گزشتہ دس سال سے ملکی اور بین الاقوامی میڈیا کے لئے تحقیقاتی رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ لحاظ الدین نے مزید بتایا کہ پھر صوبائی وزیر اور اس کے کچھ بندوں نے مل کر صلح کروا دی اور اس کا بیٹا خاموش ہو گیا لیکن جیسے آپ کو بتایا جا رہا ہے، آسان نہیں تھا، انسان اپنی جان پر سہہ لیتا ہے لیکن بچوں اور گھر والوں خصوصاً بوڑھے والدین کی تکلیف اور پریشانی نہیں برداشت ہوتی اور پھر وہ پریشانی جو ہمارے کسی اچھے کام کے بدلے ہمیں ملے اس پر ہمیں زیادہ تکلیف ہوتی ہے، بات تو ختم ہو گئی لیکن اس طرح کے کئی واقعات چھوٹے بڑے پیمانے پر ہوتے رہتے ہیں، ہمیں ہماری صحافت کے باعث گھر والوں سے متعلق ہمیں اور ان کو دھمکیاں ملتی رہتی ہیں۔
لحاظ الدین کی طرح پشاور کے کئی صحافی اپنی فیملی کے حوالے سے ملنے والی دھمکیوں اور ہراسانی کی زد میں رہتے ہیں اور ہر دوسرے روز کسی نہ کسی صحافی کے تحفظ اور سپورٹ کے لئے خیبر یونین آف جرنلسٹ آواز اٹھاتی اور مظاہرے کرتی نظر آتی ہے۔
پشاور پریس کلب میں رجسٹرڈ صحافیوں کی تعداد 500 ہے جن میں خواتین صحافیوں کی تعداد 20 ہے جبکہ خیبر یونین آف جرنلسٹ میں 520 صحافیوں کی رجسٹریشن کی گئی ہے جن میں 22 خواتین صحافی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بھی پشاور میں بڑی تعداد میں فری لانس جرنلسٹس اور ویب سائٹس آن لائن جرنلزم اور یوٹیوب کے ساتھ جڑے درجنوں مرد و خواتین صحافی اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
ہوم ڈیپارٹمنٹ سے آر ٹی آئی کے تحت لی گئی معلومات کے مطابق گزشتہ 2 سال میں پشاور سے کسی صحافی کی طرف سے سیفٹی اینڈ سیکورٹی سے متعلق تحریری طور پر نہ تو کوئی شکایت درج ہوئی اور نا ہی کسی کو کوئی سیکورٹی فراہم کی گئی، خواتین صحافیوں کی طرف سے بھی کسی قسم کی کوئی درخواست ہراسمنٹ، تشدد یا پھر دھمکیوں سے تحفظ سے متعلق ہوم ڈیپارٹمنٹ کو وصول نہیں ہوئی کہ جس پر کارروائی کی جاتی یا پھر کوئی سیکورٹی فراہم کی جاتی۔
پشاور پریس کلب کے صدر محمد ریاض کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ صحافیوں کو ہر وہ شخص ہراساں کرتا، ڈراتا اور دھمکاتا ہے کہ جو کرپٹ، بدعنوان اور فراڈیا ہوتا ہے، نہ صرف سرکاری اداروں کے افسران بلکہ سیاسی لوگ، قبضہ گروپ اور خود کو طاقتور سمجھنے والا ہر کرپٹ آدمی حقیقت کو منظر عام پر لانے کے خلاف صحافیوں کو ڈراتا دھمکاتا ہے ”تاہم صحافی کوئی عام لوگ نہیں ہیں، ان کے پاس قلم کی طاقت ہے جبکہ پریس کلب اور یونین بھی ان کی پشت پر کھڑے ہیں اس لئے لوگوں کا رویہ زیادہ تر ڈرانے دھمکانے اور ہراساں کرنے تک محدود رہتا ہے، تشدد کے واقعات آٹے میں نمک کے برابر ہیں تاہم صحافی اپنی اچھی خبر پر، جس میں کرپشن اور بدعنوانی کو عیاں کیا گیا ہو، ذہنی و نفسیاتی دباؤ کا شکار رہتا ہے بلکہ اس دوران ادارے کے مالکان پر پریشر بڑھنے کی صورت میں اسے اپنی ملازمت کے چلے جانے کا بھی ڈر رہتا ہے لیکن صحافی بہت مضبوط ہیں کیونکہ ان کے پاس قلم کی طاقت ہے۔”
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک خاتون صحافی نے بتایا کہ وہ کئی مرتبہ کوئی خبر شائع کرنے پر ذہنی اور نفسیاتی تشدد کا شکار ہوئی ہیں، ”میں نے محکمہ پولیس کے حوالے سے ایک سٹوری دی جو کہ اخبار کو بھی دی اور ایک ویب سائٹ کو بھی بھیج دی لیکن اس سٹوری کی اشاعت کے بعد ممکنہ ردعمل کو سوچ کر میری تو نیندیں اڑ گئیں، میں نے صبح 4 بجے اپنے ساتھی سب ایڈیٹر کو فون کیا اور معذرت کرنے کے بعد اپنی پریشانی بتاتے ہوئے کہا کہ پلیز میری خبر چھپنے سے رکوا دو، لیکن اس نے کہا کہ اب تو کاپی تیار ہو گئی ہو گی، میں دعائیں کرتی رہی کہ خبر نہ لگے، خبر ویب پر بھی نا لگے لیکن وہاں سے ہٹائی جا سکتی ہے اور چھپی ہوئی خبر کا کوئی حل نہیں ہے۔ میری خبر تمام ثبوتوں کے ساتھ تھی لیکن مجھے یہ سوچ کر ذہنی و نفسیاتی اذیت ملی رہی تھی کہ وہ میرے بچوں کو ایسا نقصان نہ پہنچا دیں جس کا ازالہ ممکن نہ ہو، میں رات بھر سوچتی رہی کہ بچوں کو سکول کتنے دن بھجواؤں گی او رروزمرہ کے استعمال کی اشیاء کی خریدو فروخت کرنے کے لئے بھی بچے باہر جاتے ہیں انہیں کیسے روکوں گی، اپنے شوہر سے مشورہ کیا تو انہوں نے تسلی دی کہ پریشانی کی بات نہیں جو ہو گا دیکھ لیں گے لیکن بچوں کی وجہ سے میں بہت پریشان رہی۔ اللہ کی مدد ہوئی کہ جب میں نے صبح اخبار دیکھا تو خبر نہیں چھپی تھی کیونکہ سب ایڈیٹر خود بھی نہیں چاہتے تھے کہ ان کے لئے مسئلہ بنے اس لئے اخبار میں خبر نہیں چھپی اور میری ایک اچھی خبر اس لئے نہیں چھپی کہ ہمیں اپنا اور فیملی کا تحفظ اور زندگی عزیز ہے۔
ویب سائٹ خبر چلی لیکن اس میں الفاظ کا ردوبدل کر دیا گیا۔ صحافیوں کا قلم آزاد ہو، انہیں تحفظ حاصل ہو تو وہ بہتر انداز میں کام کر سکتے ہیں اور معاشرے کا آئینہ بن سکتے ہیں لیکن صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ میں ایک ماں بھی ہوں، بیوی بھی ہوں، دوسروں جیسی انسان ہوں، اپنا تھحظ چاہتی ہوں، ملازمت، روزگار اور پیسہ میرے بچوں کی تکلیف اور زندگی سے اہم نہیں، میں جانتی ہوں کہ حقیقی صحافت کی یہ روح نہیں۔”
خیبر یونین آف جرنلسٹس کےجنرل سیکرٹری محمد نعیم نے کہا کہ وہ چند سال قبل ٹریفک پولیس کی جانب سے انتہائی تشدد کا نشانہ بنے اور ہسپتال داخل رہے، ”گھر والے پریشان رہے، ھم صحافیوں کے گھر والے بھی ہر وقت خطرے میں رہتے ہیں، ھمارے کام کی وجہ سے انہیں بھی ذہنی کوفت اور پریشانی کا سامنا رہتا ہے جن میں زیادہ تر صحافیوں کی بیویاں اور والدین زیادہ نفسیاتی، ذہنی کوفت، تکلیف اور پریشانیوں کا سامنا کرتے ہیں، دوسرے شعبوں میں ایسا نہیں ہوتا، صحافیوں کی سوشل لائف بھی بہت متاثر ہوتی ہے، ان کی ڈیوٹی ٹائمنگ ایسی ہوتی ہیں کہ ان کا خاندان ضرور ان کے کام سے متاثر ہوتا ہے۔”
خاتون صحافی اور آج ٹی وی کی بیورو چیف فرزانہ علی نے صحافیوں کی فیملیز کے حوالے سے کہا کہ صحافی تو چوبیس گھنٹے ذہنی تناؤ میں ہوتے ہیں اور یہ تناؤ ان کی فیمیلی کو بھی متاثر کرتا ھے، ”جرمن ادارے کے تعاون سے یونیورسٹی آف پشاور نے جرنلزم اینڈ ماس کمیونی کیشن ڈیپارٹمنٹ اور سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ میں صحافیوں کی ذہنی صحت اور ٹراما کے لئے ٹریننگ رکھی تھی جب پشاور میں اے پی ایس کا واقعہ ہوا تھا پھر کبھی صحافیوں کو سٹریس سے نمٹنے اور اس سے نکلنے کے لیے کوئی تربیت نہیں دی گئی جبکہ دیگر شعبوں کی نسبت صحافت میں نا صرف صحافی بلکہ ان کی ساری فیملی کو بالواسطہ یا بلاواسطہ طریقے سے ذہنی تناؤ، نفسیاتی مسائل اور بعض اوقات تو تشدد کے واقعات سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔”