پولیس اہلکار کے مبینہ تشدد سے ماں کے پیٹ میں بچے کی موت، لواحقین کے احتجاج پر انکوائری شروع
ندیم مشوانی
نوشہرہ میں ماں کے پیٹ میں مرنے والے بچے کے لواحقین نے ان کی موت کا الزام بچے کے چچا پر لگایا ہے جو کہ پولیس اہلکار بھی ہے۔ لواحقین کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکار نے اپنی حاملہ بھابھی کو تشدد کا نشانہ بنایا اور پیٹ پر لات مارنے سے بچے کی موت واقع ہوگئی ہے۔
لواحقین نے پولیس محکمہ پر اپنے پیٹی بند کو بچانے اور وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کی جانب سے دھمکیاں ملنے کے الزامات بھی لگائے ہیں اور ان کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔
گزشتہ شب لواحقین نے بچے کی لاش اٹھا کر جی ٹی روڈ کو شوبرا چوک کے مقام پر بند کر دیا تھا اور پولیس کے خلاف نعرہ بازی کر رہے تھے۔
خاتون کے بھتیجے کا کہنا تھا کہ ہسپتال انتظامیہ نے پولیس کے کہنے پر رپورٹ تبدیل کی ہے اور واقعہ کو طبعی موت قرار دیا ہے حالانکہ یہ سراسر جھوٹ ہے کیوںکہ خاتون کے پولیس اہلکار دیور نے ان پر تشدد کیا ہے اور بچے کی موت اسی وجہ سے ہوئی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ گزشتہ دن ہسپتال کا دورہ کرنے والے وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کے سامنے بچے لاش لے کر گئے تو انہوں نے بھی داد رسی کی بجائے الٹا ہمیں تھپڑ مارنے کی دھمکیاں دیں۔
لواحقین کے احتجاج میں بعد ازاں مسلم لیگ نون کے مقامی رکن اسمبلی اختیار ولی نے بھی شرکت کی اور پولیس پر واقعے کی تحقیقات کا زور ڈالا۔
بعد ازاں ڈی پی او عمران خان نے بچے کا پوسٹ مارٹم اور متاثرہ خاتون کا میڈیکل کرنے کے وعدے پر لواحقین نے احتجاج ختم کرکے تدفین کی تیاریاں شروع کردیں۔
ڈی پی او کا کہنا ہے کہ اگر میڈیکل میں پولیس اہلکار کی جانب سے خاتون پر تشدد ثابت ہوتا ہے تو ان کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔
خیال رہے کہ خیبرپختونخوا میں اس طرح کے گھریلو تشدد میں دن بہ دن اضافے کے پیش نظر رواں سال جنوری میں گھریلو تشدد کی روک تھام کا قانون منظور کیا گیا ہے لیکن ابھی تک نافذ نہیں ہو سکا ہے۔
خواتین کے حقوق کے علمبردار کہتے ہیں کہ قانون کی عدم موجودگی کے باعث ایسے واقعات میں ملزمان بہت آسانی سے رہا ہوجاتے ہیں۔