”پانی میں بدبو ہوتی ہے اور ذائقہ بھی عجیب سا ہوتا ہے”
سلمی جہانگیر
”کچھ سال پہلے جب اس علاقے میں گھر بنایا تو پانی کا زور اتنا ہوتا تھا کہ پہلی منزل تک بغیر مشین کے پانی پہنچتا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نا صرف آبادی بڑھی بلکہ پانی کا زور اتنا کم ہوا کہ علاقے کے مکینوں نے پانی کی موٹر لگوائی لیکن کچھ عرصے بعد پانی اتنا کم ہوا کہ مشین کے ذریعے بھی پانی کا آنا بند ہوا، ہر سال گرمیوں کے مہینے میں اس علاقے کے لوگوں کو پانی کی کمی کا بڑا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔” یہ کہنا ہے پشاور کے علاقے رشید گڑھی کے گلاب خان کا جو گزشتہ 50 برسوں سے اس علاقے میں رہائش پذیر ہیں۔
گلاب خان نے مزید بتایا کہ بات صرف پانی کی کمی کی نہیں بلکہ اب تو جو پانی گھروں میں آتا ہے اس میں بدبو بھی ہوتی ہے اور ذائقہ بھی عجیب سا ہوتا ہے۔
دوسری جانب ڈبلیو ایس ایس پی کے ترجمان حسن علی کے مطابق ایسے علاقے جو گنجان آباد ہیں وہاں مزید ٹیوب ویل بنانے کے لئے جگہ نہیں ہے اور آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے پانی کا استعمال بھی زیادہ ہوتا ہے۔
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں حسن علی نے بتایا کہ ہر ماہ 40 سے 50 تک پانی کے ٹیسٹ کئے جاتے ہیں، ان ٹیسٹوں کے لئے کچھ ٹیوب ویلوں اور کچھ گھروں کے پانی کے رینڈم سیمپلز لئے جاتے ہیں، اور ان ٹیسٹوں سے یہ ثابت ہوا ہے کہ پشاور کا پانی مکمل طور پر 100 فیصد پاک و صاف اور پینے کے قابل ہے۔
حسن علی نے مزید بتایا کہ اس وقت 592 ٹیوب ویلوں سے پشاور کی 92 یونین کونسلوں میں سے 43 یونین کونسلوں کو WSSP پانی فراہم کرتا ہے۔ باقی کچھ یونین کونسلوں میں کنٹونمنٹ بورڈ اور پی ڈی اے جیسے سرکاری محکمے عوام کو پانی فراہم کرتے ہیں جن میں حیات آباد، صدر، گلبرگ اور شامی روڈ وغیرہ شامل ہیں۔
پشاور کے لڑمہ علاقے سے تعلق رکھنے والی 72 سالہ حسن پری کا کہنا ہے کہ ان کے گھر میں کنواں ہوتا تھا جس کی گہرائی ڈھائی گز بتائی جاتی ہے، ”جب بارشیں ہوتیں تو کنواں اتنا بھر جاتا کہ پانی کنویں سے باہر آ جاتا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کنویں کی گہرائی بڑھتی گئی کیونکہ پانی کی سطح نیچے ہوتی رہی۔
حسن پری کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے ڈبلیو ایس ایس پی کے ترجمان نے کہا کہ پشاور کی مثال ایک پیالے کی ہے جس کے اردگرد پہاڑ ہیں تو پشاور میں زیر زمین پانی کی سطح کم نہیں ہو رہی لیکن جب ٹیوب ویل 10 یا 15 سالہ پرانا ہو جاۓ تو اس سے نکلے ہوئے پائپ یا نالیاں تنگ ہو جاتی ہیں تو اس میں پانی کا بہاؤ کم ہو جاتا ہے، لوگوں کو لگتا ہے کہ پانی کی سطح کم ہو گئی ہے لیکن اصل وجہ نالیوں کا بند ہونا ہوتا ہے، ایسے ٹیوب ویلز کی ری بورنگ کی جاتی ہے یا اسی جگہ نیا ٹیوب ویل بناتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق ڈبلیو ایس ایس پی 76،340 صارفین کو روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً 50.49 ملین گیلن پانی سپلائی کرتا ہے، ملک میں فی فرد پانی کی اوسط ضرورت ایک دن میں 120 لیٹر ہوتی ہے اور جس مقدار میں اس کا استعمال ہوتا ہے وہ ان کی ضروریات سے تقریباً دو گنا زیادہ ہوتی ہے۔
پشاور یونیورسٹی کے انوائرمینٹل سائنسز ڈیپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر آصف خان خٹک نے بتایا کہ پاکستان پانی کی قلت کا شکار ملک بن رہا ہے اور ایسے حالات میں پانی کا تحفظ بہت ضروری ہے، زمینی پانی ایک قیمتی وسیلہ ہے تاہم زمینی پانی ابسٹریکشن ایک غیر منظم عمل ہے، اور یہ پانی کے بے دریغ استعمال کا باعث بن رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دو وجوہات ہیں جن کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح کم ہو رہی ہے:
1۔ پہلی وجہ ماحولیاتی تبدیلی ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کے باعث بارشوں میں بھی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ماحولیاتی خشک سالی کے طویل دورانیے کے نتیجے میں بارش نہیں ہوتی اور اس طرح زیرزمین پانی کے ریچارج کا عمل رک جاتا ہے، ری چارج وہ قدرتی عمل ہے جس میں بارش کا پانی مٹی کے ذریعے دوبارہ زمین میں چلا جاتا ہے اور آخر کارپانی زیر زمین پہنچ جاتا ہے، اس طرح پانی کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے تحت زمینی ابسٹریکشن کو درست طور پر ریگولیٹ کیا جائے تاکہ پانی کے بے دریغ استعمال کو روکا جا سکے، ایسا کرتے ہوئے پانی کے تحفظ میں اہم کردار ادا کیا جا سکے گا۔
2۔ دوسری وجہ آبادی میں اضافہ ہے اور اس طرح زمینی پانی کی طلب میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مزید ٹیوب ویل بنائے جاتے ہیں اور اس سے پانی کے استعمال میں اضافہ ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق شہروں میں پانی کا ضیاع گاؤں کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے خاص طور پر سروس سٹیشنز پر روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں گیلن پانی ضائع ہوتا ہے. اگر ان کا تدارک کیا گیا تو روزانہ لاکھوں گیلن پانی ضائع ہونے سے بچ جائے گا، اگر گھروں میں بجلی کی طرح پانی کے میٹر بھی لگا دیئے جائیں تو اس سے بھی کافی حد تک پانی کے ضیاع کو روکا جا سکتا ہے۔