‘آزادی کے 74 سال بعد بھی خود کو آزاد محسوس نہیں کرتے’
آمنہ استمراج / رانی عندلیب
‘انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوئے ہمیں 74 سال بیت گئے لیکن اس معاشرے میں ہم آج بھی غلاموں کی طرح زندگی بسر کررہے ہیں ۔ ہم آج بھی خود کو محکوم سمجتھے ہیں کیونکہ نہ تو آج تک ہمیں اپنے حقوق دئیے گئے ہیں اور نہ ہی ہم یہ حق دیا جاتا ہے کہ ہم اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں’۔
خیبرپختونخوا سمیت ملک بھر میں آج چودہ اگست بہت جوش وخروش کے ساتھ منایا جاتا ہے اور اس سلسلے میں لوگ مختلف طریقوں میں وطن سے محبت کا اظہار کرر ہے ہیں تاہم بعض خواتین گلہ کررہی ہیں کہ پاکستان کی 74 ویں سالگرہ پر بھی وہ خود کو آزاد محسوس نہیں کرتی۔
پشاور کے علاقے مہمند آباد سے تعلق رکھنے والی تیس سالہ سیما صبا کا کہنا ہے کہ ہم بچپن سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ چودہ اگست آزادی کا دن ہوتا ہے لیکن ہمیں آج تک معاشرے نے نہ وہ مقام دیا جو ہمیں اسلام اور قانون نے دیا ہے اور نہ ہی ہمیں وہ آزادی میسر ہے جس کی فضاء میں ہم کھل کر سانس لیے سکے اور ہمیں بھی یہ محسوس ہو کہ واقعی ہم ایک آزاد ریاست کے شہری ہیں۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے سیما نے بتایا کہ بے شک اسلامی لحاظ سے ہم ایک آزاد میں زندگی بسر کررہے ہیں اور یہاں صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ ، ہندو، سکھ، عیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو بھی آزادی ملیہیں اور بقول انکے وہ اپنی مذہب احکامات کے مطابق آزادی کی زندگی بسر کررہے ہیں لیکن معاشرتی لحاظ ہم خواتین کو وہ آزادی نہیں ملی جو ہر انسان کو ملتی ہیں ۔
ان کے بقول ہم خواتین کو آج بھی یہ حق نہیں حاصل کہ ہم اپنی مرضی سے نوکری کرسکے، شادی کے معاملے میں اپنی رائے دے سکے، اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکے اور زندگی کے دیگر فیصلوں میں اپنے اختیارات کو استعمال کرسکے۔
وہ کہتی ہیں کہ ہمارے معاشرے میں آج بھی لڑکیوں کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی اور اگر کسی لڑکی کا شوہر وفات ہوتا ہے تو سسرال والے لڑکی کی مرضی کے بغیر اس کی شادی اسکے دیور یا گھر کے دوسرے فرد کے ساتھ کروا دیتے ہیں اور اس سارے معاملے میں لڑکی سے کسی بھی قسم کی رائے یا ان کی مرضی نہیں پوچھی جاتی۔
سیما کا مزید کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ سب لوگ ایک جیسا سوچ رکھتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو خواتین کے حقوق کے بارے میں سمجھ بجھ رکھتے ہیں اور وہ اپنے گھروں میں ، ماں ،بیوی، بہن اور بیٹی کو ان کے بنیادی حقوق دیتے ہیں لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جہنوں نے اپنے گھروں میں ، ماں ،بیوی ،بہن اور بیٹی کو اپنی حکم کے تابع بنایا ہوا ہے ۔
حواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی سماجی فعال کیا کہتے ہیں ؟
خیبرپختونخوا میں حواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والے سماجی فعال کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں رہنے والے زیادہ تر لوگ آزادی کے مطلب کو نہیں سمجھتے اور جب ایک عورت اپنی آزادی کی بات کرتی ہے تو ان کےذهين میں عجیب وغریب قسم کے خیالات آتے ہیں لیکن یہ خواتین ایک اسلامی معاشرے میں رہتے ہوئے زندگی کی بنیادی حقوق کی آزادی چاہتی ہیں جس میں ، تعلیم ، روزگار، شادی ، رائے دینا اور دیگر شامل ہیں۔
اس حوالے سے خواتین کی حقوق کے لئے کام کرنے والی ایک غیرسرکاری تنظم عورت فاؤنڈیشن کی سربراہ صائمہ منیر نے ٹی این این کو بتایا کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور ایک اسلامی ملک کے آئین میں مرد اور خواتین کو یکساں حقوق دیئے گئے ہیں لیکن لوگوں کی ناسمجھی کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں عورت کو کمتر سمجھا جاتا ہے اور یہی وجہ کہ زیادہ خواتین زندگی کی بنیادی حقوق سے محروم رہ جاتی ہیں۔
صائمہ کے مطابق پاکستان کے آئین میں آرٹیکل 3 سے لیکر 29 تک ہر کسی کو اظہارتعلیم، رائے، زبان، نقل و حمل، رہن سہن اور روزگار کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ خواتین بھی مردوں کی طرح نہ صرف ایک بہتر تعلیم حاصل کرسکتی ہیں بلکہ وہ روزگار ، رائے اور فیصلہ سازی می بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہیں اور ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سی مثالیں موجود ہے جس میں خواتین نے تحریک آزادی کے لئے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔
تحریک آزادی میں خواتین کا کردار
ضلع مردان میں عبدالولی خان یونیورسٹی کے شعبہ پشتو کے چئیر مین ڈاکٹر سہیل خان کے مطابق آزادی کے لئے جدوجہد زیادہ تر پشتون علاقوں سے شروع ہوئی تھی جس میں ہزاروں کی تعداد میں پشتون لوگ جیل چلے گئے تو اس وقت ان کے خواتین نے نہ صرف گھر بار کا خیال رکھا بلکہ انہوں نےکھیتی باڑی اور بچوں کی تربیت بھی کی ۔
انہوں نے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ فضل رحیم ساقی بھی ان خدائی خدمتگارو میں شامل ہیں جہنوں نے آزادی کی تحریک میں جیل کاٹی تھی ۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ’ ایک دن فضل رحیم ساقی جب آزادی کے بعد اپنے جیل والے حالات لکھ رہے تھے تو اس وقت انکی بیوی نے ان سے پوچھا کہ میاں ! آپ یہ کیا لکھ رہے ہو؟ اس سوال کے جواب میں ساقی نے کہا کہ بیگم کہ گرفتاری کے بعد جیل میں ہم پر جو مشکلات گزری ہیں وہ ایک ایک لمحہ لکھ رہا ہو۔ یہ سن کر بیوی میری پاس آئی اور کہا کہ آپ تو اپنے مشکلات لکھ لو گے لیکن آپ کی غیر موجودگی میں ہم پر جو مشکلات گزری ہیں وہ کون لکھے گا ہم کیسے اپنے مشکلات تاریخ کا حصہ بنائیں گے؟ وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک بہت بڑا سوال تھا جسکا جواب کسی کے پاس بھی نہیں تھا’۔
ڈاکٹر سہیل کے مطابق اس واقعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے خواتین بھی تحریک آزادی میں قربانیاں دے چکی ہیں جس کو کسی بھی صورت میں اگنور نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ دیگر اور نام بھی ہیں جس نے مختلف طریقوں سے آزادی کے لئے جدوجہد کی جس میں الف جان خٹکہ، بشری بیگم اور سواتے ابی شامل ہیں۔ الف جان خٹکہ اپنے قلم کے ذریعے جدوجہد کرتی اور ان کی جدوجہد سے انگریز اتنے خوفزادہ تھے کہ انہوں نے انکی ساری نظموں کو سنسر کردیا تھا اور جہاں پر بھی انکی نظمیں شائع ہوئی تھی تو ان کو بھی مارکیٹ سے اٹھا دیتے تھے، اسی طرح بشریٰ بیگم نے بھی آزادی کی تحریک میں بڑا حصہ لیا ۔
وہ کہتے ہیں ایک اور خاتون جس کا نام سواتے ابی تھا اور وہ گجر گڑھی سے تعلق رکھتی تھی تو اس نے ايک جنگ کے دوران اپنی کارنامہ کچھ یوں دیکھایا کہ جب ایک انگریز کیپٹن ‘حی ‘کے فائرنگ سے 17 لوگ جاں بحق ہوگئے تو اس وقت سواتے ابی نے اپنا منگے( پانی کا مٹکہ) اٹھا کر اس کیپٹن کے سر پر مارا جس سے اس کی موت واقعہ ہوئی۔