خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

ہوم بیسڈ ورکرز کے لئے قانون منظور مگر ایسی خواتین کی شناخت کیسے ہوگی؟

 

خالدہ نیاز

خیبرپختونخوا میں گھروں کے اندر کام کرنے والے افراد کو تحفظ اور مراعات دینے کے حوالے سے بل صوبائی اسمبلی سے منظور کرلیا گیا ہے۔ بل کے تحت گھروں میں کام کرنے والے ہنرمند افراد کو رجسٹرڈ کیا جائے گا اور پھر انکو وہ تمام مراعات اور حقوق دیئے جائیں گے جو باقی مزدوروں کو حاصل ہے۔

ٹی این این نے ان خواتین سے بات کی ہیں جنہوں نے خواتین ہوم بیسڈ ورکرز کے حقوق اور قانون سازی کے لیے کئی سال محنت کی یے۔

خیبرپختونخوا میں ہوم بیسڈ ورکرز یونین کی صدر  اور محنت کش لیبر فیڈریشن کی نائب صدر تاجمینہ کا کہنا ہے کہ ہوم بیسڈ ورکرز بل کا پاس ہونا بہت خوش آئند ہے کیونکہ انکی 13 سالہ محنت رنگ لائی ہے۔

‘میں پچھلے 13 سال سے ہوم بیسڈ ورکرز کے بنیادی حقوق کے لیے کام کررہی ہوں، خیبرپختونخوا میں عرصہ دراز سے خواتین اپنے گھروں کے اندر بیٹھ کرکام کررہی ہیں لیکن خواتین کو اس بارے میں آگاہی نہیں تھی کہ جو خواتین یا مرد گھروں میں بیٹھ کر کوئی کام کرتے ہیں تو وہ بھی مزدور ہوتے ہیں اور انکے بھی ویسے ہی حقوق ہوتے ہیں جس طرح باقی مزدوروں کے ہوتے ہیں’ تاجمینہ نے بتایا۔

حقوق کی آگاہی میں لیبر فاؤنڈیشن کا کردار

انہوں نے کہا کہ حقوق کی آگاہی انکو لیبرفاؤنڈیشن ادارے نے دی اور انہوں نے ہی انکو راستہ دکھا دیا کہ گھروں میں کام کرنے والے ہنرمند افراد بھی مزدور ہیں اور انکے بھی حقوق ہوتے ہیں، اس کے بعد یہ سب اکٹھی ہوئی اور انہوں نے ایک یونین بنائی۔ تاجمینہ کے مطابق یونین میں اب تک انکے پاس بارہ سو ممبرز رجسٹرڈ ہیں جس میں سوات، نوشہرہ، مردان چارسدہ پورے خیبرپختونخوا سے خواتین شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 900 سٹکس پیک کرنے کا معاوضہ صرف ایک روپیہ، یہ ہیں خیبر پختونخوا کے ہوم بیسڈ ورکرز

انہوں نے کہا یونین تو انہوں نے بنالی لیکن پھر اسکی رجسٹریشن نہیں ہورہی تھی جس کے لیے انہوں نے مختلف دفتروں کے چکر کاٹے ہیں، کبھی لیبر ڈیپارٹمنٹ تو کبھی اسمبلی اور کبھی کسی اور دفتر۔ تاجمینہ کا کہنا ہے کہ ہوم بیسڈ یونین کی رجسٹریشن کے لیے انہوں نے کئی لوگوں کی منتیں کی ہے جس کے بعد کہیں جاکر انکے یونین کو رجسٹریشن ملی۔

ہوم بیسڈ ورکرز کو بھی وہ مراعات مل جائیں گے جو انکا حق ہے

‘ خوشی ہوئی ہے کہ چلو دیر سے ہی سہی ہوم بیسڈ ورکرز کو بھی وہ مراعات مل جائیں گے جو انکا حق ہے’ تاجمینہ نے کہا کہ اگر اب بھی بل پاس نہ ہوتا تو انہوں نے ایک بڑے احتجاج کی تیاری شروع کر رکھی تھی جس میں ساری رجسٹرڈ خواتین کی شرکت یقینی تھی۔ صوبائی صدر نے مزید کہا کہ ہوم بیسڈ کے حقوق کے لیے انکے ساتھ لیبر ایجوکیشن فاؤنڈیشن اور د حوا لور تنظیم نے کافی مدد کی ہے۔

ہوم بیسڈ ورکرز کے مسائل پر بات کرتے ہوئے تاجمینہ نے کہا کہ گھروں میں کام کرنے والی خواتین کو کئی مشکلات کا سامنا ہے، مڈل مین کی وجہ سے ان خواتین کو کام کے بہت کم پیسے ملتے ہیں اس کے علاوہ خواتین کو گھر کا کام اور بچوں کو بھی دیکھنا ہوتا ہے جبکہ جو ریٹ مرد ورکرز کو ملتا ہے اس کا آدھا بھی خواتین ورکرز کو نہیں ملتا اب بل پاس ہونے کے بعد انکو امید ہے کہ ہوم بیسڈ ورکرز کے مسائل حل ہوجائیں گے۔

سب سے مشکل کام ہوم بیسڈ ورکرز کا پتہ لگانا تھا

ہوم بیسڈ ورکرز کے حقوق کے لیے سرگرم د حوا لور نامی تنظیم کی انتظامی افسر خورشید بانو نے بھی حکومت کے اس اقدام کو سراہا ہے اور کہا ہے کہ انکو مزدور تسلیم کرنے سے ہوم بیسڈ ورکرز کے کافی مسائل حل ہوجائیں گے۔ ‘ 13 سال پہلے جب ہم نے ہوم بیسڈ ورکرز پہ کام شروع کیا تو اس وقت جو سب سے مشکل کام تھا وہ یہ تھا کہ ہوم بیسڈ ورکرز کہاں کہاں پر ہے اور انکی تعداد کیا ہے، یہ کون کونسا کام کررہے ہیں جس کے لیے ہم نے مختلف اضلاع سے ان کا ڈیٹا جمع کیا اور گھروں میں کام کرنے والی خواتین کے گروپس بنائے’

خورشید بانو نے کہا کہ انکے ادارے نے نہ صرف ہوم بیسڈ ورکرز خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی بلکہ اس کے ساتھ ان خواتین کو ڈیجیٹل سکلز بھی دیئے’ ہمارے ادارے کی ایک لڑکی مختلف علاقوں میں جاتی تھی جہاں وہ ان خواتین کو گھروں کے اندر ہی سکلز دیتی تھی جس کے بعد کئی خواتین نے اپنے پیجز بنالیے اور موبائل استعمال کرنے کا طریقہ سیکھ لیا کہ کس طرح وہ آن لائن اپنا کام لوگوں کو دکھا سکتی ہیں اور آرڈرز بھی لے سکتی ہیں’

قانون تو بن جاتے ہیں لیکن اصل مسئلہ اس پہ عمل درآمد کا ہوتا ہے

خورشید بانو نے بتایا کہ اس کے علاوہ انہوں نے وومن ایم پی ایز کو بھی ان خواتین کے مسائل سے آگاہ کیا اور انکے ساتھ مختلف موقعوں پر ملاقاتیں کی کہ ہوم بیسڈ ورکرز کے حوالے سے قانون سازی ہونی چاہیئے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس بل کو اسمبلی میں لانے اور منظور کرانے میں ایم پی اے زینت بی بی کا کردار قابل ستائش ہے کیونکہ ہوم بیسڈ ورکرز کے لیے جب کوئی پروگرام ہوتا وہ اس میں ضرور شرکت کرتی اور انکے حق کے لیے آواز بھی اٹھاتی۔

خورشید بانو نے کہا کہ اب جب قانون پاس ہوگیا ہے تو اب اس حوالے سے اور بھی زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ قانون تو بن جاتے ہیں لیکن اصل مسئلہ اس پہ عمل درآمد کا ہوتا ہے، ان کا ادارہ کوشش کرے گا کہ ہوم بیسڈ ورکرز کو قانون کے حوالے سے آگاہی دے تاکہ انکو پتہ چل سکے کہ انکے حقوق کیا ہے اور وہ کس طرح اس قانون سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button