پاکستان کے حسین مگر حکومتی توجہ سے محروم علاقے
کیف آفریدی
سیاحت کے لحاظ سے اگر دنیا کے دس بہترین ممالک کا موازنہ پاکستان سے کیا جائے تو ان ممالک کی سیاحت سے حاصل کی گئی کُل آمدنی اور پاکستان کی سیاحتی آمدنی کا کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ ہمارا ملک سیاحتی مقامات اور موسموں میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا مگر ہم سے سیاحت کے ہر پیرائے میں پیچھے ممالک اپنے اس سیکٹر کی ترقی سے کافی آمدن حاصل کر رہے ہیں۔
پاکستان سیاحوں کے لیے ایک پرکشش مقام رہا ہے۔ ملک کے شمال میں قدرت کے حسین ترین مقامات موجود ہیں لیکن سیاحت کے قابل وہ جگہیں جنہیں ابھی تک حکومت نے صحیح توجہ نہیں دی وہ ہیں قبائلی علاقہ جات۔ جی ہاں! قبائلی اضلاع بھی قدرتی حسن سے مالا مال ہیں۔
"قبائلی علاقوں میں سیاحت کے حوالے سے اب تک کئے گئے اقدامات”
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے خیبر پختونخوا کے سیاحت کے برانڈ ایمبیسیڈر کبیر آفریدی نے بتایا کہ پچھلے کئی سالوں سے قبائلی علاقہ جات کے حوالے سے منفی سوچ پائی جاتی تھی، لوگوں کے لیے یہ اضلاع ایک خوف کی علامت تھے، لیکن اب امن بحال ہو چکا ہے اور میں ایک اوورسیز پاکستانی ہوں، قبائلی علاقوں میں سیاحت کے فروغ کے لیے میں خود ان علاقوں میں گیا ہوں اور دنیا کو دکھایا بھی ہے کہ قبائلی عوام امن پسند اور مہمان نوازی میں اعلی مقام رکھتے ہیں، ”پہلے مرحلے میں قبائلی اضلاع کا دورہ کرنے کا مقصد یہاں کے مقامی باشندوں کو یہ تاثر دینا ہے کہ وہ واپس اپنے علاقوں کو چلے جائیں اور اپنی زندگی میں پہلے جیسی خوشحالی واپس لائیں۔
کبیر آفریدی کے مطابق ضلع خیبر اور وزیرستان سیاحت کو حوالے سے بے مثال ہیں، ضلع خیبر میں ایسے پرفضا مقامات ہیں جو تاریخی ایڈونچر کے لیے زبردست جگہیں ہیں خاص کر وادی تیراہ، اس کے علاوہ شمالی وزیرستان میں بھی خوبصورت نظارے ہیں جو دیکھنے والوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ نیز ان تمام علاقوں میں سیاحت کے لیے بہت بڑا زخیرہ ہے۔
قبائلی علاقوں میں سیاحت کے فروغ کے لیے کیا کرے؟
کبیر آفریدی نے قبائلی اضلاع میں سیاحت کو فروغ کے حوالے سے بتایا کہ حکومت کو اس ضمن میں کچھ تجاویز دی ہیں، ”اول تو سیاحتی مقامات پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی آنے والے کو کسی قسم کی کوئی شکایت نہ ہو کیونکہ یہ اضلاع پہلے سے خراب صورتحال کا سامنا کر چکے ہیں۔
قبائلی علاقہ جات میں سیاحت کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ حکومت ان علاقوں میں بحالی، صفائی ستھرائی اور درستگی پر دھیان دے، سوشل میڈیا پر تشہیر کی جانی چاہیے، اس کے علاوہ حکومت کو ان مقامات کے لیے ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کے ضمن میں زیادہ سرمایہ کاری کرنا ہو گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ان علاقوں میں پانی، بجلی، صحت اور خاص کر فرسٹ ایڈ کی سہولیات اور موبائل نیٹ ورک ہونا چاہیے۔ حکومت جب سرمایہ کاری کرے اور مقامی باشندے ان سے بھرپور فائدہ اٹھائیں تو وہ دن دور نہیں کہ قبائلی علاقوں میں سیاحت کی رونقیں بحال ہو جائیں گی۔”
کیا افغانستان کی موجودہ صورتحال کا قبائلی اضلاع میں سیاحت پر اثر پڑے گا؟
ٹی این این سے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے سابق انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخوا اور تجزیہ نگار ڈاکٹر سید اختر علی شاہ نے بتایا کہ اگر افغانستان میں حالات مزید خراب ہوتے ہیں تو سرح کے قریب علاقوں پر ضرور منفی اثرات مرتب ہوں گے خصوصاً سیاحت پر اثر پڑے گا کیونکہ اگر افغانستان میں موجودہ صورتحال برقرار رہی تو افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد پناہ لینے کے لیے یہاں کا رخ کرے گی اور ایک غیریقینی صورتحال پیدا ہونے کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر سید اختر علی شاہ نے کہا کہ ہمارے قبائلی علاقوں میں، جو پہلے بھی خطرناک حالات کا سامنا کر چکے ہیں، وہاں امن کی فضا کو برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا، ”جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ قبائلی اضلاع کے بعض علاقوں میں ابھی بھی ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے واقعات ہور رہے ہیں اس لئے ان اضلاع میں سیاحتی سرگرمیاں نظر نہیں آ رہیں اور اگر افغانستان کے حالت مزید بگڑ گئے تو پھر قبائلی علاقوں میں سیاحت کے فروغ کا امکان بالکل صفر ہو جائے گا، اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے انٹلیجنٹس نیٹ ورک میں مزید بہتری لائی جائے تاکہ کسی بھی وقت ناخوشگوار واقعے کو پہلے سے روکا جا سکے اور ہمیں پہلے جیسے برے حالات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔”
سابق آئی جی کے مطابق اگر پاکستان کی موجودہ گورنمنٹ پاکستان کی معاشی حالت کو واقعی بہتر بنانا چاہتی ہے تو اسے ٹورازم انڈسٹری کی بہتری پر خاص توجہ دینا ہو گی، ”گورنمنٹ کو چاہئے کہ ملکی و غیرملکی سرمایہ کاری کو فروغ دے اور انفراسٹرکچر کی بہتری کے لئے سرمایہ کاری کرے جن میں سڑکیں، ٹرانسپورٹ، ایئر لائن انڈسٹری کے ساتھ ساتھ نئے ہوٹلز، ریسٹورنٹس اور ریزورٹس کی تعمیر وغیرہ بھی شامل ہیں، اس سے نا صرف پاکستان کی انکم میں اضافہ ہو گا بلکہ پاکستان میں روزگار کے اور مواقع بھی پیدا ہوں گے، اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں کہ ان چھوٹے چھوٹے مثبت اقدامات سے ہم دنیا کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ایک نیا اور روشن چہرہ دکھانے میں کامیاب ہو سکیں گے۔”