سولہ سالہ خالد جرائم کی دنیا سے باہر کیسے نکل آیا؟
نسرین جبین
سولہ سالہ خالد والد کی وفات کے بعد بہت اکیلا ہو گیا تب اسکی سرپرستی کرنے، اچھے برے کی تمیز سکھانے، گمراہ ہونے سے بچانے اور سیدھی راہ پر چلانے کے لیے اس کا ہاتھ تھامنے والا کوئی نہیں تھا اور یوں اس معاشرے میں بد نصیبی اسے گمراہی کہ راہ پر لے گئی اور وہ گناہوں کی دنیا کا باسی بنتا چلا گیا ایسے میں اس سے ایک گناہ سرزد ہو گئی (یہاں میں اس گناہ کا ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھتا)اور اس گناہ کے باعث اسے گرفتار کر لیا گیا اور اسے پاکستان پینل کورٹ کی دفع 377 کے تحت ایک سال کی سزا ہی۔
خیبرپختونخوا کے ایک پروبیشن آفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان حالات میں خالد کی ماں کوبیوگی کے بعد جہاں گھر کوگئے اخراجات بچوں کی تعلیم گھر کا کرایہ لباس خوراک کے پورا کرنے کی فکر تھی وہاں اسے اپنے بیٹے کے گمراہ ہو جانے غلط راہ پر چل نکلنے اور پھر گرفتار ہو کر سزا ہو جانے کا دکھ اسے اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا۔ خالد کی تین بہنیں اور ایک چھوٹا بھائی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس دکھیاری ماں کی دعائیں سن لیں اور خالد کو حکومت پاکستان کے قانون کے تحت جیل بھیجنے کی بجائے پروبیشن پر بھیج دیا گیا جہاں اس کی سرپرستی اور کونسلنگ ہونے لگی اس کی آواز سنی گئی اس کے مسائل سنے گئے اور انہیں حل کر کے اسے اعتماد دینے کی کوشش پروبیشن آفیسر نے کی۔ وہ گناہ کی تاریک گلیون سے نکل کر بہتر انسان بننے کی طرف آگے بڑھنے لگا ، خالد کی والدہ حکومت سے بہت خوش تھی کیونکہ وہ کہتی رہی کہ حکومت نے میرے بیٹے کو سیدھے راستے پر ڈالا ہے خالد کی ماں بار با پروبیشن آفیسر کے پاس جا کر منتیں کرتی کہ کسی طرح اس کے بیٹے کو غلط راستے سے واپس لے آئے اور ایسا ہی ہوا اور اب وہ اپنے ماموں کی دکان پر محنت اور تندہی سے کام کرتا روزی کماتا اور اپنی ماں سمیت گھر والوں کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا خالد کوئی پیشہ ور مجرم نہیں تھا وقتی طورپر حالات کے پیش نظر وہ گمراہی کی دلدل میں دھنسنے لگا لیکن مناسب ٹریٹمنٹ سے دوبارہ نیک لوگوں میں شامل ہو گیا ہے اور یہ ممکن ہوا پروبیشن ڈیپارٹمنٹ اور پروبیشن آفیسر کی بہترین حکمت عمی سے۔
اسی طرح کے کئی واقعات ایسے ہیں جن میں پروبیشن ڈیپارٹمنٹ اپنے گوں نا گوں مسائل کے باوجود اپنا بھر پور کردار ادا کرتے ہوئے نوجوانوں کو چھوٹے جرائم کے مرتکب ہونے پر سزاوں کے بعد ان کو جرائم کی دنیا سے بچانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں 2442 مرد پروبیشنرز ہیں جن میں نوجوان جیونائل اور بچے سب شامل ہیں جبکہ 16 خواتین پروبیشنرز ہیں جبکہ 2018 کے جیونائل جسٹس سسٹم ایکٹ کے تحت 08 سال تک کی عمر کے بچے اور پھر نوجوان بھی شامل ہیں۔
انتہا پسندی اور جرائم کی کمی میں پروبیشن آفیسرز اور پروبیشن ڈیپارٹمنٹ کا کردار
حادثاتی، واقعاتی یا دیگر کسی وجہ سے معزز شہریوں کی طرف سے جرم سرزد ہونے کے بعد انہیں سزا کے دوران جیل میں رکھنے سے جیل میں میں موجود پیشہ ور قیدیوں کے ماحول سے بچانے کے لیے انہیں پروبیشن پر بھیج دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنےاگر اپنے گھر والوں کے لیے روزگار کا وسیلہ ہے تو روزگار جاری رکھےخاص طور پر نوجوان طبقے کا مستقبل خراب نہ ہو دستاویزات میں ان کا جرم کہیں درج نا ہو سکے جبکہ اس دوران ان پر پابندی لگائی جاتی ہے کہ وہ دوسرے اضلاع میں نا جائے یا بتا کر پوچھ کر جائے پابندیوں کا تعین انکی سزا اور قانون کے مطابق کیا جاتا ہے تاہم وہ ایک عام شہری کی طرح زندگی گزارتا ہے ، پروبیشن آفیسز اس کی ملازمت کے لیے تصدیق کا کام بھی کرتے ہیں ان کے گھر کا وزٹ سادہ کپڑوں میں کرتے ہیں اور اسے ہر ممکن طرح سے نفسیاتی ذہنی معاشی معاشرتی مسائل سے نکالنے میں جہاں تک ممکن ہو رہنمائی کرتے ہیں جس سے وہ مزید جرم کی دنیا میں جانے کی بجائے سیدھے راستے پر چلنے کی طرف راغب ہوجاتا ہے۔
نفسیاتی مسائل:
ماہر نفسیات و ڈاکٹر اختر علی شاہ کے مطابق انتہا پسندی میں جہاں دیگر معاملات کارفرما ہیں وہاں بےروزگاری، نفسیاتی مسائل، مختلف حوالوں سے تحفظ کے مسائل گھر کا اور معاشرتی ماحول بھی عدم برداشت اور انتہا پسندی کو فروغ دیتا ہے اور جب نوجوانوں کو ان مسائل سے چھٹکارہ ملنے کی امید نظر آتی ہے توپھر وہ نارمل زندگی کی طرف لوٹ جاتا ہےاور اس سلسلے میں کونسلنگ، والدین کا بچوں کو وقت دینا توجہ دینا اہم کردار ادا کرتا ہے جبکہ اس دوران ان سے سرزد ہو جانے والے جرائم میں بھی بہتر طریقے سے معاملات کیا جائے تو وہ مزید جرم کرنے یا انتہا پسندی تک جانے سے بچ جاتے ہیں۔
پروبیشن آفیسرز کا کردار
اس حوالے سے خیبر پختونخوا کے ایک ڈسٹرکٹ پروبیشن آفیسر نے بتایا کہ انتہا پسندی اور جرائم کو کم کرنے میں پروبیشن ڈیپارٹمنٹ پیش پیش ہے اور اس طرح کے درجنوں پروبیشنرز اب پہلے سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں جب وہ ھمارے پاس آتے ہیں تو ان کی حالت دیکھنے لائق نہیں ہوتی لیکن ہماری زیر نگرانی وہ زندگی کی اچھائیوں کی اور حقیقتوں کی طرف لوٹ آتے ہیں اور یہی امید انہیں جرائم اور انتہا پسندی سے دور لے جاتی ہے ہم ان کے تمام معاملات صیغہ راز میں رکھتے ہیں ان کو اعتماد دلاتے ہیں اور ان میں خود اعتمادی پیدا کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے پروبیشنرز کی شخصیت اور حالات ہنر مندی تعلیم اور دیگر حالات کے مطابق اس کی ملازمت اور روزگار کے وسیلے کا بھی بندوبست کر دیتے ہیں اور خود ان کی ضمانت دیتے ہیں پمارا مقصد انہیں واپس ایک بہتری کارآمد شہری اور معاشرے کا معزز فرد بنانا ہوتا ہے۔
جیلوں سے بوجھ کم کرنے کا ذریعہ
غیر سرکاری تنظیم کے نمائندے عمران کے مطابق پروبیشن ڈیپارٹمنٹس جیلوں سے بوجھ کم کرنے کا ذریعہ ہیں خیبر پختونخوا کی جیلوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ تعداد میں قیدی موجود ہیں اور ان کی حفاظت ، رہائش ،خوراک، علاج اور دیگر ضروریات پر لاکھوں روپے سرکاری خزانے سے خرچ ہوتے ہین جبکہ دنیا بھر میں زیادہ تر ایسے افراد پروبیشنرز بنا دیئے جاتے ہیں تا کہ وہ جرم کرنے کے بعد سرکاری مہمان بن کر روٹیاں توڑنے کی بجائے محنت کرے اور کما کر کھائے اور سرکاری خزانے پر بوجھ کم ہوسکے۔