ٹِک ٹاک۔۔ کیا ایک سوشل نیٹ ورکنگ ہی ہے؟
نازیہ جاوید
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ سوشل میڈیا نے پچھلے بیس سالوں میں جو ترقی کی منزلیں طے کی ہیں اس کا اندازہ اب ہر چھوٹے بڑے شخص کے ہاتھ میں موبائل فون ِاور ان کی ہر ویب سائٹس سے آگاہی کو دیکھ کر بخوبی ہوتا ہے۔ جس کا استعمال جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہے۔ موبائل فون کو ہم جہاں اپنے پیاروں سے بات کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں وہاں مختلف قسم کی ویب سائٹس مثلاٌ وٹس ایپ، ایمو یا مسینجر اور دیگر کئی ویب سائٹس نے مزید سہولت دے کر دور دراز کے رشتہ داروں اور ہمارے مابین فاصلوں کو مٹا دیا ہے۔
لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا یہ ایک سوشل نیٹ ورکنگ ہی ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر کوئی بہ آسانی سمجھ بھی جاتا ہے اور بنا وقت ضائع کئے جواب بھی دے دیتا ہے۔ ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہم اپنے دین اور اس کی تعلیمات بھلا کر مغربی تہذیب کی ہر اس بے حیائی اور فتنہ فساد کو گھروں میں داخل کر چکے ہیں جسے ہم فیس بک، یوٹیوب یا گوگل اور ٹک ٹاک اور ایسے کئی ویب سائٹس کے نام سے جانتے ہیں۔
ٹیکنالوجی کے اس دور میں دنیا ایک گلوبل ویلیج بن گئی ہے اور سوشل میڈیا پر فین فالوونگ بنانے کے لئے نوجوان نسل مکمل طور پر گمراہ اور تباہ کن راستے پر چل پڑی ہے، یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ٹک ٹاک نوجوان نسل کی ایک ایسی لت بن چکا ہے کہ مشھور ہونے کے لئے آئے روز کئی خوبرو نوجوان ہتھیار سے کھیلتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، اور بہت سے ماں باپ بغیر کسی کے ساتھ دشمنی کے اپنے چشم و چراغ کو گولیوں کی بھینٹ چڑھتے ہوئے دیکھ کر زندہ درگور ہو جاتے ہیں۔
Tik Tok اس بے شرمیِ بے حیائی اور بے غیرتی کا نام ہے جس میں ہر عمر کے لوگ خود کو اپنے ہاتھوں ذلیل کرنے پے تلے ہوئے ہیں۔ شریف گھرانوں کی وہ لڑکیاں، جنھیں گھرِ سکول اور مدرسہ کے علاوہ کسی خرافات کا علم نہ تھا، جنہوں ادھر ادھر سے ہیجڑے کا صرف نام سن رکھا تھا، آج وہ پشاور سمیت، سوات، حیات آباد، مردان، لاہور اور دیگر شہروں کے تمام ٹرانسجنڈر اور شی میل کو جانتی پہچانتی بھی ہیں اور بڑے شوق سے ان کو تذکروں میں بھی رکھتی ہیں۔
افسوس مشرقی لڑکیاں اپنی اقدار بھلا کر مغربی تہذیب اپنانے لگی ہیں، آج کی نسل کی پرورش ایسے ماں باپ کے ہاتھوں میں ہے جو خود بھی اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ بچوں کو قرآن و حدیث پڑھانے کے بجائے موبائل ہاتھ میں دے کر معاشرے کی ایک ناکام اور بگڑی نسل کو پروان چڑھا رہے ہوتے ہیں اور بچپن ہی سے موبائل کا عادی بنا کر جوان ہونے پر سر پکڑ کر روتے ہیں کہ بچے غلط صحبت میں بیٹھنے سے خراب ہو گئے۔
ٹک ٹاک کو اگر دجالی ایپ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کیونکہ ٹک ٹاک نے 2 سال کے اندر جو شہرت حاصل کی اور پانچ سو ملین یوزرز بنائے اور ہندو عورتوں سمیت مسلم عورتیں بھی بن سنور کے ایسی برہنہ ویڈیوز بنا لیتی ہیں جس کا دین اسلام میں کوئی تصور نہیں۔ دشمن اسلام سرگرمیاں مسلم امت کو ننگا اور برہنہ کرنے پہ تلے ہوئے ہیں۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ایک ایسا وقت آئے گا جب ایسے فتنے ظاھر ہو جائیں گے جو تاریک رات کے ٹکڑوں کی مانند ہوں گے اور ان فتنوں کا اثر ہو گا کہ آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں اٹھے گا اور شام کو کافر بن جائے گا اور جب شام کو مومن ہو گا تو صبح کو کفر کی حالت میں اٹھے گا۔ نیز اپنے دین و مذہب کو دنیا کی تھوڑی سی متاع کے عوض بیج ڈالے گا۔
عزیزو! ذرا سوچو، ہم اس کائنات کے عظیم پیغمبر کی عظیم قوم ہیں۔ روز محشر کس منہ سے نبی آخر و الزمان کے سامنے پیش ہوں گے؟ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ جس عورت کو اسلام نے حیا کا پیکر بنا کر حیا کی چادر میں لپیٹ دیا، ٹک ٹاک نے اسی عورت کو برہنہ کر کے پرائے مردوں کے دل کے بہلاوے کا سامان بنا دیا۔
اسلام کے جھنڈے کے علمبردارو! آؤ عہد کریں کہ اپنے بچوں کو موبائل جیسے دجالی فتنہ سے دور رکھیں گے۔
نوٹ: بلاگر کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔