6 سالہ مناہم اپنے دادا کی تصویر سے ہی پیار کر سکتی ہے!
گل حماد فاروقی
مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے پیٹر سجن پشاور کے بھانہ مانڑی بازار میں سینیٹری کا کاروبار کر رہے تھے۔ 4 جون 2012 کو چند نامعلوم اغواء کار اس کی دکان پر آ کر اسے کام کے بہانے اپنے پاس لے گئے۔ گھر والوں نے شام تک انتظار کیا مگر جب وہ گھر واپس نہ لوٹے تو تھانہ بھانہ مانڑی میں اس کی گمشدگی کا روزنامچہ درج کروایا۔ اس دوران اغواء کاروں نے پیٹر سجن کے ہی موبائل فون سے اس کے اہل خانہ سے رابطہ کر کے بیس لاکھ روپے بطور تاوان مانگے۔ یہ غمزدہ خاندان یہ رقم دینے کو بھی تیار تھا مگر اغواء کاروں نے پہلے پیسوں کا مطالبہ کیا کہ اسے ایک خاص جگہ میں رکھ دیا جائے اور بعد میں پیٹر سجن کو چھوڑ دیا جائے گا۔ تاہم اس کے گھر والوں کو اغواء کاروں پر بھروسہ نہیں تھا کہ وہ ایڈوانس میں تاوان کا رقم لے کر اسے چھوڑ بھی دیں گے یا نہیں۔
متاثرہ حاندان نے اس کی گمشدگی کا روزنامہ پولیس اسٹیشن بھانہ مانڑی میں درج کروایا تھا اور 17 اگست 2012 کو باقاعدہ تعزیرات پاکستان کے دفعہ 365 کے تحت FIR کٹوائی۔ اس کے بیٹے جانگیر پیٹر کا کہنا ہے کہ پولیس نے ابھی تک اس کیس میں سوائے ہمیں تنگ کرنے کے اور ٹال مٹول سے کام لینے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا۔ پیٹر سجن کی بیوی نسرین پیٹر کا کہنا ہے کہ جب سے ان کے میاں اغواء ہوئے ہیں ہمارا پورا خاندان غم سے نڈھال ہے اور وہ اس کی غم میں بیمار پڑ چکی ہیں۔
اس کی بیٹی شہلا پیٹر کا کہنا ہے کہ ہم روز ابو کی بازیابی کیلئے دعا مانگتے ہیں، ابو کو دیکھنے کو بھی ترس گئے۔ عادل پیٹر اس کا چھوٹا بیٹا ہے، اس کا کہنا ہے کہ وہ ابو کے غم میں ڈپریشن کا مریض بن چکا ہے اور ہر روز ابو کے انتظار میں اس کی راہ تکتا ہے۔
مناہم کی عمر چھ سال ہے جو اس کی پوتی ہے وہ صرف اپنے دادا کی تصویر ہی سے پیار کر سکتی ہے جسے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں۔ اس کے چھوٹے بھائی امانویل سجن کا کہنا کہ وہ پولیس کی کارکردگی سے نہایت مایوس ہے۔ پیٹر سجن کی بہو نداء جانگیر کا کہنا ہے کہ اس کے سسر کے اغواء کے بعد ان کا کوئی بھی دن خوشی سے نہیں گزرتا اور کوئی بھی اہم دن ہم نہیں منا سکتے ہیں۔
اس سلسلے میں تھانہ بھانہ مانڑی کے تفتیشی آفیسر انسپکٹر واجد شاہ سے جب پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ کیس کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹنمنٹ کے پاس گیا ہے اور اس میں دو مشکوک بندے گرفتار بھی ہوئے تھے جو بعد میں ضمانت پر رہا ہو گئے۔
ایس ایس پی انویسٹی گیشن شہزادہ کوکب سے بار بار رابطہ کر کے ان کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
مغوی کے بیٹے جانگیر پیٹر نے بتایا کہ اغواء کاروں نے میرے ابو کے موبائل نمبر 033391354197 سے ہی ہمیں پشاور کے محتلف مقامات سے اور ایک بار جہلم سے بھی فون کر کے بیس لاکھ روپے مانگے مگر ابھی کافی عرصہ گزر گیا کہ انہوں نے رابطہ نہیں کیا۔
پیٹر سجن کا غمزدہ خاندان وزیر اعظم پاکستان، چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف آف آرمی سٹاف سے اپیل کرتے ہیں کہ پیٹر سجن کو اغواء کاروں کی چنگل سے بازیاب کرایا جائے تاکہ اس کے گھر والے سکھ کا سانس لیں اور ان کے ہاں بھی خوشیاں لوٹ آئیں۔