ٰاسلام، مزاح اور قندھار کا خاشا۔۔!
مولانا خانزیب
چند دن پہلے افغانستان کے شہر قندھار میں ایک عوامی کامیڈین، فیض محمد عرف خاشا، کو چند طالبان نے گھر سے اٹھایا اور پھر اگلے روز اس کی لاش ملی۔
اس قتل کے بعد ایک گاڑی میں اس کامیڈین کی ویڈیو وائرل ہوئی جس کا انٹرنیشنل سطح پر سوشل میڈیا پر انتہائی سخت ردعمل آیا اور اس طرح کے اقدامات نے لوگوں کو مستقبل کے حوالے سے مزید تشویش میں ڈالا کہ اگر طالبان کی پیش قدمی جاری رہتی ہے تو وہ کس طرح فن اور فنکار کو بغیر کسی جرم کے صحرائی انصاف کے نام پر قتل کر دیتے ہیں، اس واقعے سے طالبان کی سبکی ہوئی جو دنیا کے سامنے کوئی مؤثر جواز دینے میں ناکام رہے ہیں۔
ہم جائزہ لیتے ہیں کہ کیا اسلام واقعی ایک خشک فنون لطیفہ کا دشمن اور انسانی فطرت و مزاح سے دور دین ہے یا یہ ہر وقت ہر زمان میں انسانی سوسائٹی کی ضروریات و تخلیقات کے ساتھ رواداری کے ساتھ چلنے کا نام ہے مگر مستقل جنگ وجدل اور اس خطے میں جاری زمانوں سے جنگی اقتصاد نے اسلام کے مقدس دین کا استحصال کر کے اس کے حقیقی چہرے کو دھندلا دیا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں وقار، سنجیدگی اور متانت کی فضاہ قائم رہتی تھی۔ یہاں تک کہ خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت بابرکت میں ایسے باادب و باتمکین ہو کر بیٹھتے تھے کہ گویا ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ ادنٰی سی حرکت سے اڑ جائیں گے۔ مگر پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش طبعی کی جھلک ان متبرک صحبتوں کو خوشگوار بناتی رہتی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اگر ایک طرف نبی مرسل کی حیثیت سے احترام رسالت کو ملحوظ رکھتے ہوئے وعظ و تلقین میں مصروف رہتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسری طرف صحابہ کے ساتھ ایک بے تکلف دوست اور ایک خوش مزاج ساتھی کی حیثیت سے بھی میل جول رکھتے۔ اگر زیادہ اوقات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس ایک دینی درسگاہ اور تعلیمی ادارہ بنی رہتی تو کچھ دیر کے لئے خوش طبع مہذب دوستوں کی بیٹھک بھی بن جاتی جس میں ظرافت کی باتیں بھی ہوتیں اور گھر بار کے روزانہ کے قصے بھی بیان ہوتے۔
مزاح اور دل لگی انسانی فطرت کا ایک لازمی حصہ ہے جو خود خالق ومالک نے اس میں ودیعت فرمایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر فردِ بشر میں یہ مادہ معتد بہ مقدار میں پایا جاتا ہے۔ جو شخص اس عطائے الٰہی کو منجمد نہیں رہنے دیتا اس کو بروئے کار لاتا ہے وہ صحیح معنی میں فوائدِ کثیرہ اور منافعِ عظیمہ حاصل کرتا ہے۔ چنانچہ تجربہ شاہد ہے کہ جو شخص اس ودیعت الٰہی سے استفادہ نہیں کرتا بلکہ بہ تکلف اس کو دباتا ہے۔ اپنے اوپر وقار اور سنجیدگی کا خول چڑھا لیتا ہے اور اپنے آپ کو وقار اور تمکنت کا مجسم پیکر بنا کر لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اسے مغرور، متکبر، بدمزاج، بدخلق، نک چڑھا جیسے القابِ بے بہا سے نوازا جاتا ہے۔ اس کے لئے افادہ اور استفادہ امر محال بن جاتے ہیں، وہ چاہے کثیر و عظیم علوم کا امین ہو اور دیگر بہت سے خواص کا بھی حامل ہو مگر اس کے ان خواص سے اہل عالم کماحقہ استفادہ نہیں کر پاتے۔ اس کے برخلاف جو انسان اس نعمت خداوندی کو بروئے کار لاتا ہے، اسے منجمد نہیں رہنے دیتا، اہل دنیا اسے متواضع، منکسر المزاج، خوش اخلاق، خوش طبع، خوش مزاج جیسے القاب سے نوازتے ہیں، اپنے متعلقین و متوسلین میں وہ بڑا ہی مقبول و محبوب ہوتا ہے۔ دنیا میں وہ ہر دلعزیز بن کر زندگی بسر کرتا ہے، کثیر تعداد میں لوگ اس سے استفادہ کرتے ہیں اور نتیجتاً اس کی صلاحیتوں اور استعداد کو جلاء ملتی جاتی ہے اور اس کی قابلیتیں نکھر کر سامنے آتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوٰة والسلام بہ ہمہ وجوہ امت کے فکر و غم میں مستغرق ہونے کے باوجود ان میں بھی ایک فطری جذبہ ہوتا تھا۔ موقع اور محل کی مناسبت سے انسان سے اس کا صدور مطلوب ہے اور محمود بھی۔ جب شریعتِ اسلامیہ عین فطرتِ انسانیہ کے موافق ہے تو اس میں اس فطری جذبے یعنی مزاح و خوش طبعی کے احکام نہ ہوں یہ ناممکن ہے۔ اسلام نے وضع قانون میں انسانی مزاج اور فطرت کی بدرجہ اتم رعایت برتی ہے۔ خوشی ہو یا غمی، صحت ہو یا مرض، بچپن ہو یا جوانی یا بڑھاپا، شریعت نے ہرحال، ہر آن اور ہر مرحلہ پر انسانی مزاج کے موافق احکام وقوانین مقرر کئے ہیں۔
غرض بے تکلفی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے اور صحابہ آپس میں گفتگو کرتے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ظرافت کس طرح کی تھی؟ اس تشریح کی یوں ضرورت ہے کہ بہت سے کاموں میں ہمارے غلط عمل سے ہمارے نظریات بدل چکے ہیں۔تخیل کہاں سے کہاں چلا گیا ہے؟ ہر معاملہ میں اعتدال کھو بیٹھے ہیں۔اگر ہم سنجیدہ اور متین بنتے ہیں تو اس قدر کہ تہذیب ہم سے کوسوں دور رہتی ہے۔ اور اگر خوش طبع بنتے ہیں تو اس قدر کہ تہذیب ہم سے کوسوں دور رہتی ہے۔اسلئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیں ایک خاص معیار اپنے سامنے رکھنا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ظرافت کی تعریف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی زبان مبارک سے سن لیجئے۔شمال ترمذی میں ہے کہ صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعجب سے پوچھا کہ آپ بھی مذاق کرتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہاں بے شک! میرا مزاح سراسر سچائی اور حق ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ مزاحی واقعات نقل کئے جاتے ہیں تاکہ عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مزاح کا سنت طریقہ معلوم ہوجائے اور متبعین سنت کے لئے یہ فطری جذبہ بھی دیگر متعدد فطری جذبات کی طرح عبادت بن جائے۔
عن انسٍ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ان رجلاً استحمل رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم فقال انی حاملک علی ولد ناقةٍ فقال ما اصنع بولد الناقةِ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہل تلد الابل الا النوق (مشکوٰة ص۴۱۶)
(حضرت انس سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں سواری کے لئے اونٹنی کا بچہ دوں گا تو سائل نے عرض کیا کہ میں اونٹنی کے بچے کا کیاکروں گا تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا اونٹنی اونٹ کے علاوہ بھی کسی کو جنتی ہے؟)
ملاحظہ فرمائیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں سائل سے مزاح بھی فرمایا اور اس میں حق اور سچائی کی رعایت بھی فرمائی سواری طلب کرنے پر آپ نے جب اونٹنی کا بچہ مرحمت فرمانے کا وعدہ فرمایاتو سائل کو تعجب ہوا کہ مجھے سواری کی ضرورت ہے اوراونٹنی کا بچہ اس قابل نہیں ہوتا کہ اس پر سواری کی جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے تعجب کو دور کرتے ہوئے اور اپنے مزاح کا انکشاف کرتے ہوئے فرمایا کہ بھائی میں تجھے سواری کے قابل اونٹ ہی دے رہا ہوں مگر وہ بھی تو اونٹنی ہی کا بچہ ہے۔
عن انسٍ ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لہ یاذالاذنین (مشکوٰة ص۴۱۶)
(حضرت انس سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اے دوکان والے)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت انس سے ”اے دو کان والے“ کہنا بھی ظرافت اور خوش طبعی کے طورپر تھا۔ اور ظرافت کا یہ انداز تو ہمارے عرف میں بھی رائج ہے مثلاً کبھی اپنے بے تکلف دوست سے یا ذہین طالب علم سے ناراضگی کا اظہار اس انداز میں کیاجاتا ہے کہ ایک چپت رسید کروں گا تو تمہارا سر دوکانوں کے درمیان ہوجائے گا۔ حالانکہ وہ پہلے سے وہیں پر ہوتا ہے۔
عن انسٍ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لامرأةٍ عجوزٍ انہ لاتدخل الجنة عجوزٌ فقالت مالہن وکانت تقرء القرآن فقال لہا ما تقرئین القرآن اِنَّا انشئاناہن انشاءً فجعلنٰہنّ ابکارًا(مشکوٰة ص۴۱۶)
(حضرت انس حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ایک بوڑھی عورت سے فرمایاکہ بڑھیا جنت میں داخل نہیں ہوگی۔ وہ عورت قرآن پڑھی ہوئی تھی اس نے عرض کیا بوڑھی کے لئے کیا چیز دخولِ جنت سے مانع ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے قرآن میں نہیں پڑھا ہم جنتی عورتوں کو پیدا کریں گے پس ہم ان کو کنواریاں بنادیں گے۔)
ایک اور روایت میں یہ واقعہ مزید تفصیل کے ساتھ وارد ہوا ہے کہ اس صحابیہ عورت نے جو بوڑھی تھیں آپ سے دخولِ جنت کی دعا کی درخواست کی تو اس پر آپ نے مزاحاً فرمایا کہ بڑھیا تو جنت میں داخل نہیں ہوگی، یہ سن کر بڑھیا کو بڑا رنج ہوا اور روتے ہوئے واپس چلی گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاکر اس عورت کو کہہ دو کہ عورتیں بڑھاپے کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہوں گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے ”اِنَّا انشئاناہن انشاءً فجعلنٰہنّ ابکارًا“ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاح اس واقعہ میں بھی مبنی برحق تھا مگرآپ نے ایک سچی بات کو مزاحیہ انداز میں بیان کرکے امت کو یہ تعلیم دی کہ کبھی کبھار مذاق اور دل لگی بھی کرلینی چاہئے۔
حضرت انس فرماتے ہیں کہ ایک بدوی صحابی زاہر بن حرام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کچھ دیہاتی اشیاء بطور ہدیہ لایا کرتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی واپسی پر اسے کچھ شہری اشیاء ہدیتہ عنایت فرماتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمایاکرتے تھے زاہر ہمارا باہر کا گماشتہ ہے اور ہم اس کے شہر کے گماشتہ ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم زاہر سے بڑی محبت فرماتے تھے ویسے زاہر ایک بدصورت آدمی تھے ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم بازار تشریف لے گئے تو زاہر کو اپنا سامان بیچتے ہوئے پایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پیچھے سے اپنے ساتھ اس طرح چمٹالیا کہ اپنے دونوں ہاتھ اس کے بغلوں کے نیچے سے لیجاکر اس کی آنکھوں پر رکھ دئیے تاکہ وہ پہچان نہ پائے (یہ افتاد دیکھ کر) زاہر نے کہا کہ کون ہے؟ چھوڑ مجھے۔ (پھر اس نے کوشش کرکے) مڑ کر دیکھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا (اور پہچانتے ہی) اپنی پیٹھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہٴمبارک سے مزید چمٹانے لگا۔ ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ صدا بلند کرنے لگے کہ ارے کوئی اس غلام کا خریدار ہے؟ اس پر زاہر نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول بخدا آپ مجھے کھوٹا سکّہ پائیں گے، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کھوٹا سکّہ نہیں ہے۔ (مشکوٰة ص۴۱۶) ذرا سوچئے اس طرح کے بے تکلّفانہ رویہ پر حضرت زاہر کا دل بلیوں نہ اچھلنے لگا ہوگا عن عوف بن مالک الاشجعی قال اتیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی غزوة تبوک وہو فی قبةٍ من ادمٍ فسلمت فردّ علیّ وقال فقلت أکلی یا رسول اللّٰہ قال کلّک فدخلت (مشکوٰة ص۴۱۷)
(حضرت عوف بن مالک اشجعی سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ غزوئہ تبوک کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم چمڑے کے خیمہ میں تشریف فرماتھے میں نے آپ کو سلام کیا آپ نے جواب دیا اور فرمایا کہ اندر آجاؤ میں نے (مزاح کے طور پر) عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا میں پورا اندر داخل ہوجاؤ؟ تو آپ نے فرمایا ہاں پورے داخل ہو جاؤ، چنانچہ میں داخل ہو گیا)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے اسقدر بے تکلف تھے کہ صحابہ آپ سے مزاح بھی کرلیا کرتے تھے۔
ایک انصاری صحابیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا جاؤ جلدی سے اپنے خاوند کے پاس اس کی آنکھوں میں سفیدی ہے۔ وہ ایک دم گھبرا کر خاوند کے پاس پہنچیں تو خاوند نے پوچھا کیا مصیبت ہے؟ اس طرح گھبرا کر دوڑی کیوں چلی آئی؟ اس نے کہا کہ مجھے میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ تمہاری آنکھوں میں سفیدی ہے اس نے کہا ٹھیک ہے مگر سیاہی بھی تو ہے۔ تب اسے اندازہ ہوا کہ یہ مزاح تھا اور ہنس کر خوش ہوئی اور فخر محسوس کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے اس قدر بے تکلف ہوئے کہ میرے ساتھ مزاح فرمایا (لطائف علمیہ ص۱۰)۔ اس کے علاوہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاح کے بہت سے واقعات کتب احادیث میں موجود ہیں جو مزاح کے سنتِ مستحبہ ہونے پر دال ہیں۔ لیکن یہ تمام واقعات اس بات پر شاہد ہیں کہ مزاح مبنی برصدق ہونا چاہئے اور اس میں ایذاء رسانی اور دل شکنی کا پہلو نہ ہونا چاہئے بلکہ مخاطب کی دلجوئی اور نشاط آوری مقصود ہونی چاہئے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ سے بھی مزاح کے بے شمار واقعات مروی ہیں۔ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق، فاروق اعظم اور علی مرتضیٰ ایک دوسرے کے گلے میں ہاتھ ڈالے اس طرح چلے جارہے تھے کہ حضرت علی بیچ میں تھے اور دونوں حضرات دونوں طرف۔ حضرت علی ان دونوں کے مقابلہ میں کچھ پستہ قد تھے، حضرت عمر نے مزاحاً فرمایا: ”علیٌّ بیننا کالنون فی لنا“ یعنی علی ہم دونوں کے بیچ میں ایسے ہیں جیسے ”لنا“ کے درمیان نون ہے یعنی لنا کے ایک طرف کا لام اور دوسری طرف کا الف لمبے اور درمیان میں کا نون پستہ قد ہے اس طرح ہم دونوں طویل القامت اور بیچ میں علی پستہ قامت ہیں۔ اس پر حضرت علی نے برجستہ جواب دیا: ”لولا کنت بینکما لکنتما لا“ یعنی ”اگر میں تمہارے درمیان نہ ہوتا تو تم لا ہو جاتے اور کچھ بھی نہ رہتے“ کیونکہ لنا کے بیچ سے نون ہٹا دیا جائے تو وہ ”لا“ رہ جاتا ہے۔
علامہ نووی فرماتے ہیں:
اعلم ان المزاح المنہی عنہ ہو الذی فیہ افراط ویداوم علیہ فانہ یورث الضحک وقسوة القلب ویشغل عن ذکر اللّٰہ والفکر فی مہمات الدینِ ویوٴول فی کثیر من الاوقاتِ الی الایذاء ویورث الاحقاد ویسقط المہابة والوقار فاما من سلم من ہذہ الامور فہو المباح الذی کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یفعلہ علی الندرة لمصلحةٍ تطیب نفس المخاطب وموانسة وہو سنة مستحبة․ (مرقاة ج۸ ص۶۱۷)
جان لو کہ مزاح وہ ممنوع ہے جو حد سے زیادہ ہو اور اس پر مداومت کی جائے کیونکہ یہ بہت زیادہ ہنسنے اور دل کے سخت ہونے کا باعث ہے، ذکر الٰہی سے غافل کردیتاہے اور اہم دینی امور میں غور وفکر سے باز رکھتا ہے۔ بسا اوقات ایذارسانی تک پہنچاتا ہے۔ بغض وعناد پیدا کرتا ہے رعب و داب ختم ہوجاتا ہے لیکن جو شخص ان امور سے محفوظ ہوتو اس کے لئے مباح ہے جو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کبھار کسی مصلحت کے پیش نظر مخاطب کو بے تکلف اور مانوس بنانے کے لئے انجام دیا اور یہ سنتِ مستحبہ ہے۔
مزاح اور خوش طبعی یا مذاق اور دل لگی ایک ایسی پرکیف اور سرور آگیں کیفیت ہے جو اللہ تعالیٰ نے تقریباً ہر انسان میں ودیعت فرمائی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ مادہ کسی میں کم تو کسی میں کوٹ کوٹ کر رکھا ہے سرور و انبساط کے موقع پر انسان سے بکثرت اس کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔ بلاشبہ ایک ایک عظیم نعمتِ خداوندی ہے۔ جو دلوں کی پژمردگی کو دور کرکے ان کو سرور و انبساط کی کیفیت سے ہمکنار کرتا ہے۔ عقل وفہم کے تعب و تکان کو زائل کرکے نشاط اور چشتی سے معمور کرتا ہے۔ جسمانی اضمحلال کو ختم کرکے فرحت وراحت سے آشنا کرتا ہے۔ روحانی تکدر اورآلودگی کو مٹاکر آسودگی کی نعمت سے روشناس کراتا ہے۔ بارہا دیکھا گیا ہے کہ غمزدہ اور مصیبت کے مارے انسان کے سرسے غم واندوہ کے بادلوں کو ہٹانے اور چھٹانے کے لئے اسی نعمت سے کام لیاجاتا ہے۔
الغرض مزاح اور دل لگی انسانی فطرت کا ایک لازمی حصہ ہے جو خود خالق ومالک نے اس میں ودیعت فرمایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر فردِ بشر میں یہ مادہ معتد بہ مقدار میں پایاجاتا ہے۔ جو شخص اس عطائے الٰہی کو منجمد نہیں رہنے دیتا اس کو بروئے کار لاتا ہے وہ صحیح معنی میں فوائدِ کثیرہ اور منافعِ عظیمہ حاصل کرتا ہے۔ چنانچہ تجربہ شاہد ہے کہ جو شخص اس ودیعت الٰہی سے استفادہ نہیں کرتا بلکہ بہ تکلف اس کو دباتا ہے۔ اپنے اوپر وقار اور سنجیدگی کا خول چڑھا لیتاہے اوراپنے آپ کو وقار اور تمکنت کا مجسم پیکر بناکر لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اسے مغرور، متکبر، بدمزاج، بدخلق، نک چڑھا جیسے القابِ بے بہا سے نوازا جاتا ہے۔ اس کے لئے افادہ اور استفادہ امرمحال بن جاتے ہیں وہ چاہے کثیر و عظیم علوم کا امین ہو اور دیگر بہت سے خواص کا حامل ہو مگر اس کے ان خواص سے اہل عالم کما حقہ استفادہ نہیں کرپاتے اس کے برخلاف جو انسان اس نعمت خداوندی کو بروئے کارلاتا ہے۔ اسے منجمد نہیں رہنے دیتا اہل دنیا اسے متواضع، منکسر المزاج، خوش اخلاق، خوش طبع، خوش مزاج جیسے القاب سے نوازتے ہیں، اپنے متعلقین ومتوسلین میں وہ بڑا ہی مقبول ومحبوب ہوتا ہے۔ دنیا میں وہ ہر دلعزیز بن کر زندگی بسر کرتا ہے کثیر تعداد میں لوگ اس سے استفادہ کرتے ہیں نتیجتاً اس کی صلاحیتوں اور استعداد کو جلاء ملتی جاتی ہے اور اس کی قابلیتیں نکھر کر سامنے آتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوٰة والسلام بہ ہمہ وجوہ امت کے فکر وغم میں مستغرق ہونے کے باوجود ان میں بھی ایک فطری جذبہ ہے۔ موقع اور محل کی مناسبت سے انسان سے اس کا صدور مطلوب ہے اور محمود بھی ۔ جب شریعتِ اسلامیہ عین فطرتِ انسانیہ کے موافق ہے تو اس میں اس فطری جذبے یعنی مزاح و خوش طبعی کے احکام نہ ہوں۔ یہ ناممکن ہے۔