جب بونیر کا ٹیکسی ڈرائیور عالمی شہرت یافتہ خطاط بن گیا
بہلول باچا
46 سالہ عبد الحق، جو کہ بونیر کے ایک پسماندہ گاؤں بھائی کلے میں پیدا ہوئے، گورنمنٹ ہائی سکول گدیزی سے میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد غربت اور افلاس کی وجہ سے مزید تعلیمی سفر جاری نہ رکھ سکے۔ سال 1998 میں محنت مزدوری کی غرض سے دُبئی چلے گئے اور مختلف کمپنیوں میں کبھی الیکٹریشن تو کبھی بطور لیبر کام کرتے رہے، اسی دوران ایک ڈرائیونگ سکول میں بھی داخلہ لیا اور سال 2001 میں ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کے بعد کچھ دوستوں سے اُدھار اور کچھ اپنی جمع پونجی ملا کر ذاتی ٹیکسی خرید لی اور دن رات خوب محنت کرتے رہے اور ان کے گھر کا چولہا جلتا رہا، پانچ سال تک ٹیکسی کی مزدوری سے منسلک رہے لیکن یہاں بھی قسمت نے عبد الحق کا ساتھ نہیں دیا اور سال 2006 میں جب حکومت کی طرف سے پرائیویٹ ٹیکسی چلانے پر پابندی عائد کی گئی تو عبدالحق اپنی ذاتی ٹیکسی کو بہت ہی کم قیمت پر فروخت کرنے پر مجبور ہوئے اور اس طرح وہ نہ صرف بے روز گار ہوئے بلکہ ان کے گھر میں بھی فاقے پڑنے لگے اور دوسری طرف قرض کی دلدل میں بھی ڈوب گئے۔
مگر عبد الحق نے ہمت نہ ہاری اور مزدوری کی تلاش میں نکل پڑے، آخر کار سال 2006 میں بطور ڈرائیور شارجہ کلچر ڈپارٹمنٹ کے شعبہ خطاطی میں ملازمت اختیار کی۔
کیلی گرافی سنٹر میں فارغ اوقات میں وہ طلبہ اور اساتذہ کو بہت انہماک سے دیکھا کرتے، ان کی دلی خواہش تھی کہ کاش وہ بھی یہ فن سیکھ سکیں۔ لیکن کہاں ایک ڈرائیور اور کہاں فن خطاطی، یہ تو ایک خواب ہی ہو سکتا تھا۔
عبد الحق پر قسمت کی دیوی اس وقت مہربان ہو گئی جب معروف خطاط استاد محمد فاروق خطاط کی نظر ان پر پڑی، انہوں نے عبد الحق کو فارغ اوقات میں خوشخطی سکھانا شروع کیا۔ عبد الحق چونکہ خود بھی اس فن کو سیکھنے کی پیاس رکھتے تھے لہذا اس موقع کو غنیمت جانا اور استاد الخطاط محمد فاروق خطاط کی شاگردی اختیار کی۔ بہت جلد ہی اس میدان میں اپنا لوہا منوا لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے خط دیوانی اور دیوانی جلی میں اس قدر مہارت حاصل کی کہ فن خطاطی کے بڑے بڑے ماہر استاد بھی دم بخود رہ گئے۔
سال 2014 میں جب شارجہ انٹرنیشنل کیلی گرافی نمائش کا انعقاد کیا گیا تو ان کے فن پارے کا انتخاب بین الاقوامی نمائش کے لیے کیا گیا جو کہ شارجہ کے حاکم شیخ سلطان نے ڈھائی ہزار ڈالر میں خرید لیا۔ یہاں سے عبد الحق کی کامیابیوں کا سفر شروع ہوا اور یوں ایک ٹیکسی ڈرائیور بن گیا اپنی محنت اور لگن سے ایک عالمی سطح کا خطاط، وہ گزشتہ 15 سال سے اُسی خطاطی سنٹر میں بطور خطاط اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں جہاں وہ کبھی ڈرائیور ہوا کرتے تھے۔
اُن کے فن پاروں کی نمائش شارجہ کے علاوہ پاکستان میں الحمراء آرٹ گیلری لاہور میں ہونے والی بین الاقوامی نمائش میں کی گئی، جبکہ اسلام آباد کے پی این سی اے کالج اور باچا خان یونیورسٹی میں بھی ان کے فن پارورں کی نمائش کی گئی ہے۔
عبد الحق کی زندگی سراپا جہد مسلسل اور ہمت و محنت سے عبارت ہے۔ انہوں نے کٹھن سے کٹھن حالات کا سامنا کیا لیکن استقلال سے آگے بڑھتے رہے، حروف کو خوب صورت انداز میں لکھنے کا فن ان کی پہچان بن گیا ہے، انہوں نے بچوں کی طرح اس فن کو پالا پوسا، اپنے فن کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ عربی میں ایک کہاوت ہے کہ تحریر کی پاکیزگی روح کی پاکیزگی ہے۔
وہ کہتے ہیں خطاطی ذوق سلیم کی تسکین کا دوسرا نام ہے اور یہ کہ کوئی بھی کام مشکل نہیں لیکن اگر انسان نیک نیتی اور محنت سے کام کرے۔
فن خطاطی کے مسقبل کے بارے میں انہوں کہا کہ فن خطاطی ہمارا قومی ورثہ ہے اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس کی ترویج کے لیے اپنا کردار ادا کریں، ”ایک وقت تھا جب پاکستان میں بہترین خطاط ہوا کرتے تھے لیکن حکومت اور عوام کی عدم توجہی کی وجہ سے لگتا ہے کہ ہم اس ورثہ کو کھو رہے ہیں، اب بھی وقت ہے کہ حکومت سنجیدگی سے فن خطاطی کے مسقتبل کے بارے میں سوچے تاکہ وقت کے ساتھ ساتھ آئندہ نسلوں تک یہ ورثہ منتقل ہو سکے۔”