قبائلی خواتین کو تعلیم کے لئے گھر سے نکلنے پر پابندی ہے لیکن لکڑی اور چارے کے لئے نہیں
حکمت شاہ افریدی
ضلع خیبر کے تحصیل جمرود میں چند دن پہلے ایک افسوسناک واقع پیش آیا تھا جس نے مجھے اپنے فرسودہ روایات اور قبائلی عوام کے برائے نام غیرت کے حوالے سے کافی سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔
واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ علی مسجد کے پہاڑی علاقے میں جہاں زیادہ تر لوگوں انتہائی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں، بھٹو خان نامی شخص کی بیوی مویشیوں کے لئے چارہ لاتے ہوئے پہاڑی سے گر کر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔
مرحومہ کے جنازے میں اور فاتحہ پر میں نے بھی شرکت کی اور وہاں ان کے چھوٹے چھوٹے بچوں سے بھی ملا۔ وہ بچے مسلسل رو رہے تھے اور اپنی ماں کے پاس جانے کی ضد کر رہے تھے جنہیں دیکھ کر میرے آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔
اس نوعیت کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اور نہ ہی مجھے یہ آخری حادثہ نظر آ رہا ہے اور میرے اس خیال سے علاقے کے عمائدین بھی اتفاق کرتے ہیں۔
میرے خیال میں گھر میں مویشی پالنے کیلئے اپنے خاتون خانہ کو پہاڑ پر بیجھنا سراسر ظلم وزیادتی ہے لیکن یہ ہماری روایت بن چکی ہے۔ خاتون کے تعلیم اور دیگر ضروری کاموں کے سلسلے میں گھر سے باہر نکلنے پر ہماری غیرت تو جاگ جاتی ہے لیکن انہیں سخت مشقت والے کام جیسے کہ چارے، خشک لکڑی کے لئے پہاڑی پر بیجھنے یا پانی کے لئے دور گاوں یا دریا کنارے بیجھنے پر ہمیں کسی قسم کے غیرت کا احساس نہیں ہوتا۔
خشک لکڑی اور مویشیوں کیلئے جنگلی چارہ لانے والی میمونہ نام کی قبائلی خاتون کا کہنا ہے کہ ہم نہ صرف یہ خشاک اور جنگلی گھاس جلانے اور مویشیوں کیلئے لاتے ہیں بلکہ علاقے میں مالدار لوگوں کے ہاں اسکو فروخت بھی کرتے ہیں جو کہ بہت سے غریب گھرانوں کیلئے آمدن کا ذریعہ بن چکا ہے.
انہوں نے کہا کہ قبائلی مرد حضرات ایک طرف سے خود بہت مکمل سمجھتے ہیں جبکہ دوسری جانب اپنے ہی اہل خانہ سے روزمرہ کی زندگی کے ایسے کام کروالیتے ہیں جو کہ نہ تو اسلام میں جائز ہیں اور نہ ایک قبائلی پختون عورت کو زیب دیتی ہیں۔
میمونہ نے کہا کہ پرانے وقت میں اکثر اور اب بھی چند ایک قبائلی مرد اپنے خواتین سےجلانے کیلِئےجنگلی لکڑی اور مویشیوں کے لیے جنگلی گھاس اور چارہ لانے کیلئے انہیں پہاڑوں پہ بیچھتے ہیں اسکے ساتھ ساتھ دوردراز کنووں اور چشموں سے اپنے سروں پر پیدل اپنے گھروں تک پینے کے پانی لا کر دیتے ہیں.
کسی عورت کو اسلامی قانون کیمطابق میراث میں حصہ دینے میں اکثر قبائل عار محسوس کرتے ہیں اور ان کو ان کا جمہوری حق دینے اور دلانے میں شرم محسوس کرتے ہیں تاہم یہی قبائلی مرد اپنے اہل خانہ سے غلاموں سے بھی زیادہ بد تر سلوک سے پیش آتے ہیں۔
قبائلی حضرات اول تو علم و تعلیم نسواں کے سراسر خلاف تھے تاہم وقت کیساتھ ساتھ ان کے مزاج میں اس حوالے سے تھوڑی بہت تبدیلی آئی ہے اور اجکل بیشتر والدین اپنے بچوں کو غربت کے باوجود پڑھاتے ہیں۔
بھٹو خان کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے کہ کاش اپنی بیوی کو پہاڑی نہ بیچھتا تو آج ان کے بچے یتیم نہ ہوتے۔