چارسدہ میں لیڈی ہیلتھ ورکر کا محکمہ کے ڈرائیور اور ان کی بیوی پر جنسی ہراسانی کا الزام
رفاقت اللہ رزڑوال
چارسدہ میں ایک لیڈی ہیلتھ ورکر نے محکمہ صحت کے ملازم اور ان کی بیوی پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا ہے تاہم انہوں نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ علاقہ دولت پورہ کے بیسک ہیلتھ یونٹ میں لیڈی ہیلتھ ورکر فہمیدہ نے الزام عائد کیا ہے کہ محکمہ صحت میں سیدمحمد نامی ڈرائیور ان سمیت دیگر خواتین ساتھیوں سے جنسی خدمات کا مطالبہ کرتا ہے۔
فہمیدہ نے ٹی این این کو بتایا کہ محمد سعید بی ایچ یو میں ڈرائیور ہے اور ایک خاتون کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے جرم میں انکو نوکری سے فارغ بھی کیا گیا تھا مگر وہ عدالت سے ریلیف ملنے پر اب بھی ڈیوٹی کر رہے ہیں۔
فہمیدہ کتہی ہے ” وہ بڑا پہنچا ہوا شخص ہے، کچھ عرصہ قبل میں کنٹریکٹ کی ملازمت کر رہی تھی اور ہراسمنٹ کے حوالے سے اسلئے بات نہیں کر سکتی تھی، خدشہ تھا کہ کہیں انکی ایک شکایت سے میری نوکری نہ چلی جائی۔
انکے مطابق "وہ مجھے کہا کرتے تھے کہ تم فلاں شخص کو پسند آئی ہو، اُسکے ساتھ تم ملو، اگر تمہیں انکے پاس جانے میں مشکل ہو تو میں وہ تمھارے پاس لے آؤنگا۔ ایک دن جب میں نے انکار کیا تو مرد ہونے کا فائدہ اُٹھا کر مجھے بلیک میل کرنے لگے”۔
بی ایچ یو دولت پورہ میں فہمیدہ کے ساتھ بیٹھی دیگر خواتین عملہ بھی یہی الزام لگا رہا تھا اور کہہ رہی تھی کہ مذکورہ ذرائیور بن بلائے خواتین کے اجلاسوں میں شرکت کرتا ہے۔
لیڈی ہیلتھ ورکر شہلاناز نے بتایا کہ ڈرائیور محمد سعید کی بیوی تحمیدہ دولت پورہ بی ایچ یو میں بطور سپروائزر خدمات سرانجام دیتی ہے، انکے مطابق جب ہم کسی کام کے غرض سے انہیں فون کرتے تو اُنکی جگہ ہم سے اس کا شوہر بات کرتا تھا۔
انہوں نے کہا "وہ میرے ساتھ غیرمہذب اور غیراخلاقی گفتگو کرتا تھا، یہاں پر ایک خاتون ہے انکو اس نے غیر اخلاقی پیغامات بھی بھیجے ہیں، تو ایسی صورتحال میں ایک خاتون کیسے اپنی نوکری کرسکتی ہے؟
خواتین کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو ڈرائیور محمد سعید نے اپنے خلاف سازش قرار دیا اور کہا کہ انکی بیوی تحمیدہ اپنے ماتحتوں سے ایمانداری سے کام کرنے کا مطالبہ کر رہی تھی تو جان چھُڑانے کیلئے یہی الزام لگایا۔
خواتین کی شکایات سامنے آنے کے بعد علاقہ مکین بھی ڈرائیور محمد سعید اور اُسکی بیوی کے خلاف نکل آئے،عوام نے دونوں کو ضلع بدر کرنے کا مطالبہ کیا۔ علاقہ مکینوں کا کہنا تھا کہ کہ علاقے کے اقدار اور اسلامی روایات کو پامال کرنے والوں کو برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔
آخر یہ معاملہ ہے کیا؟
مظاہرین میں 65 سالہ جانس خان نے الزام لگایا کہ تقریباً تین سال قبل مذکورہ ڈرائیور نے ایک خاتون کی عصمت دری کی تھی جس پر انہیں محکمہ صحت کے حکام نے اپنی نوکری سے بھی فارغ کیا تھا۔
محکمہ صحت ذرائع کے مطابق تقریباً 3 سال قبل ماہ رمضان میں علاقہ سُکڑ کے عوام نکل آئے تھے جنہوں نے الزام لگایا تھا کہ ڈرائیور محمد سعید بی ایچ یو کے قریبی سکول میں ایک نامحرم خاتون (اقدار کو مدنظر رکھ کر نام ظاہر نہیں کرتے ہیں) بی ایچ یو میں ملازمت کرتی ہے کو اپنے ساتھ لایا تھا۔
ذرائع کے مطابق محکمہ صحت نے انکے خلاف جنسی ہراسگی کی انکوائری شروع کی اور نتیجے میں الزام ثابت ہوا اور اپنی نوکری سے برخاست کر دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق انکوائری رپورٹ جاری ہونے کے بعد انکوائری ٹیم پر محمد سعید نے جانبداری کا الزام لگایا اور دوبارہ انکوائری کا مطالبہ کیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ انکوائری رپورٹ میں دوبارہ اس پر ہراسگی ثابت ہوئی جسے برخاست کیا گیا مگر عدالت نے دوسرے فریق کی جانب سے پیروی نہ ہونے پر انہیں بے گناہ قرار دے کر نوکری پر بحال کروایا۔
ہراسگی میں ملوث محمد سعید اور اسکی بیوی کیا کہتے ہیں؟
معاملہ سامنے آنے کے بعد ایک آڈیو کے پیغام کے ذریعے جنسی ہراسگی میں ملوث سیدمحمد نے الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ یہ انکے خلاف پیشہ ورانہ حسد کے ایک کہانی گھڑی گٸی ہے۔
محمد سعید نے کہا کہ جب اُس پر خواتین کے ساتھ بدفعلی کا الزام لگ گیا اور وہ انکوائری کمیٹی نے برخاست کرنے کی سفارش کی تو وہ عدالت گئے اور وہاں پر عدالت سے کلئر قرار دیئے گئے۔ انکا کہنا ہے "انکے خلاف الزامات لگانا غیراخلاقی اور عدالت کی توہین کے مترادف ہے”۔
محمد سعید کی بیوی لیڈی ہیلتھ سپروائزر نے ٹی این این کو بتایا اُنکی ڈیوٹی بی ایچ یو دولت پورہ میں بطور لیڈی سپروائزر لگی ہوئی ہے لیکن گاؤں کے لوگ اور ماتحت سٹاف کے عملے میں سے کچھ خواتین انکی سپرویژن سے تنگ نظر آ رہی ہے۔
انکے مطابق "وہ چاہتی ہے کہ یہاں پر پورا عملہ ایمانداری سے کام کریں، بروقت حاضری لگائیں اور ڈیوٹی کے وقت مریضوں کی خدمت کریں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ ڈیوٹی اپنی مرضی سے کریں اسلئے وہ میرے خلاف ہوئے ہیں”۔
محکمہ صحت حکام کا موقف
معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے محکمہ صحت چارسدہ کی دفتر سے بی ایچ یو دولت پورہ کے سینئر ڈاکٹر کو ہدایات جاری ہوئے کہ فوری طور پر سعید ڈرائیور کی بیوی لیڈی ہیلتھ سپروائزر تحمیدہ کو دفتر بھجوایا جائے اور تنازعہ حل ہونے تک وہاں پر دوسری ایل ایچ ایس کو تعینات کیا جائےگا۔
کام کی جگہ پر خواتین کیسی اپنی دفاع کرے گی؟
کام کی جگہ پر خواتین ہراسانی سے بچنے کیلئے 2010 میں ایک قانون منظور ہوا تھا جسے ‘کام کی جگہ پر خواتین کو تحفظ کا قانون خیبرپختونخوا 2010 کہا جاتا ہے۔ قانون کے مطابق متاثرہ خاتون صوبائی محتسب کو ایک درخواست کی شکل میں شکایت رجسٹرڈ کرسکتی ہے۔
قانون میں جرم ثابت ہونے پر مجرم کی نوکری سے برخاستگی، قید اور جرمانہ ہونے کی سزا مقرر کی گئی ہے۔
لیکن صوبائی محتسب کے فیصلے اکثر عدالتوں میں چیلنج کئے جاتے تھے جہاں پر مبینہ ملزم کو ریلیف مل جاتی تھی۔
جنوری 2020 میں خیبرپختونخوا حکومت نے مذکورہ قانون میں ترمیم کی جس میں صوبائی محتسب کو مکمل اختیارات دیئے گئے اور قانون کے تحت محتسب کے فیصلے کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جائے گا۔
صوبائی محتسب رخشندہ ناز کے مطابق اس جنوری 2019 سے جنوری 2020 تک صوبے کے مختلف سرکاری اداروں سے 59 کیسسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں 29 واقعات جنسی ہراسانی کی ہے۔
رخشندہ کہتی ہے کہ قانون میں ترمیم سے پہلے ایک خاتون نے کیس واپس لے لیا، دو کیسز عدالت میں درخواست سے معطل ہوئے۔