لنڈیکوتل میں سالانہ کتنے جانوروں کی قربانی دی جاتی ہے؟
محراب شاہ آفریدی
حکومت نے 21 جولائی کو عید الاضحٰی کرنے کا اعلان کر رکھا ہے، یقیناً عید قربان پوری دنیا میں امت مسلمہ کا ایک بڑا مذہبی تہوار ہے جس کو منا کر امت مسلمہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ اس موقع پر ہر صاحب حیثیت اور استطاعت رکھنے والے مسلمان مرد اور عورت پر قربانی واجب ہوتی ہے تاہم پورے پاکستان میں غربت، مجبوری، بے روزگاری اور کورونا وائرس کی موجودہ بڑھتی ہوئی لہر کو دیکھ کر یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اس سال لاکھوں لوگ عید قربان کے موقع پر اپنا چھوٹا یا بڑا جانور خرید کر قربانی نہیں کر سکیں گے۔ اگر محض ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل کے حال پر، بزبان قصاب حاجی دادین شینواری، اکتفا کریں تو صورتحال واضح ہو جائے گی۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں حاجی دادین شینواری نے بتایا کہ کورونا کی لہر سے پہلے صرف لنڈیکوتل بازار میں مختلف قصاب حضرات 80 سے زیادہ دنبے ذبح کر کے فروخت کیا کرتے تھے مگر پھر بھی گاہک زیادہ اور گوشت کم پڑ جاتا تھا، ”پہلے صرف لنڈیکوتل میں دو لاکھ کے قریب چھوٹے بڑے جانوروں کی قربانی لوگ کیا کرتے تھے، اگر طورخم بارڈر کے راستے دنبوں کا سلسلہ جاری ہوا اور بہت تعداد میں دنبے لنڈی کوتل درآمد ہوئے تو پانچ سے لے کر آٹھ ہزار تک ایک دنبے کی قیمت میں فرق آ جاتا ہے۔
گزشتہ رات افغانستان سے آنے والے 31 دنبوں کو پاکستانی کسٹم حکام نے آج کلئیرنس کے بعد لنڈی کوتل کورنٹین سنٹر بھیج دیا، کسٹم حکام کے مطابق افغانستان سے آنے والے فی دنبہ پر 800 تک کسٹم ڈیوٹی آئی ہے، افغانستان سے طورخم بارڈر کے راستے مزید دنبوں کی گاڑیاں بھی جلد پہنچ جائیں گی جو کہ کسٹم حکام کلیئرنس کے بعد کورنٹین سنٹر اور پھر وہاں سے وہ لنڈیکوتل اور پشاور مویشی منڈی لے جائے جائیں گے۔
ٹی این این کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے شاہد شینوراری نے کہا کہ افغانستان سے دنبے لائے گئے تو مویشی منڈی میں قیمتیں بہت کم ہو جائیں گی، ”لنڈی کوتل منڈی میں پشاور سے بڑی تعداد میں دنبے لنڈی کوتل منڈی پہنچائے گئے ہیں، گاہک بھی آتے ہیں، لیکن قیمت سن کر واپس چلے جاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر طورخم کے راستے میں دنبوں درآمد کا سلسہ جاری ہو تو قیمتوں میں بہت کمی آ جائے گی اور غریب لوگ بھی دنبے خریدنے کے قابل ہو جائیں گے، چونکہ اب 21 جولائی کو عید الاضحٰی ہے، ٹائم بہت کم ہے اس لئے کسٹم حکام کو چاہئے کہ کہ کلیئرنس میں تاخیر سے کام نہ لیں تاکہ زیادہ تعداد میں دنبے آ سکیں۔