سیاسی رہنماؤں سے سکیورٹی واپس، ریٹائرڈ ڈی آئی جی کے دنبے اور مرغیوں کی سکیورٹی پر تاحال 18 اہلکار مامور
افتخار خان
خیبرپختونخوا حکومت نے سابقہ وزراء اعلیٰ سمیت 29 سیاسی رہنماوں اور اہم شخصیات سے تمام پولیس سکیورٹی واپس لے لی ہے جس پر حکومت کو کھڑی تنقید کا سامنا ہے۔
گزشتہ روز ایلیٹ فورس کی جانب سے اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس میں سابقہ وزیراعلیٰ امیر حید خان ہوتی، سابقہ وزیرداخلہ و قومی وطن پارٹی کے سربراہ افتاب احمد شیرپاو، عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان، اے این پی کے مرکزی جنرل سیکرٹری میاں افتخار حسین، مسلم لیگ نون کے صوبائی صدر امیرمقام کے تمام سکیورٹی اہلکاروں کو ہیڈکوارٹر واپس رپورٹ کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہے۔
اعلامیہ کے مطابق حکومتی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کی ممبر قومی اسمبلی انور تاج، سینیٹر ایوب افریدی، پی ٹی آئی کی ممبر صوبائی اسمبلی صومی فلک ناز، سابق ڈی جی نیب خیبرپختونخوا ناصر فاروق اعوان، دیر کے نواب نوابزادہ امیر خان، معروف ڈاکٹر نعیم اور ڈاکٹر افتخار سے بھی پولیس اہلکار واپس بلا لئے گئے ہیں۔
ایلیٹ فورس کے اعلامیہ میں ان رہنماوں اور شخصیات سے سکیورٹی واپس بلانے کی کوئی وجہ تو بیان نہیں کی گئی ہیں لیکن فیصلے پر اگر ایک طرف ایلیٹ فورس اور حکومت پر سخت تنقید کی جا رہی ہے تو دوسری جانب کچھ لوگ اس فیصلے کو سراہ بھی رہے ہیں۔
اے این پی کے امیر حیدر خان ہوتی نے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے سکیورٹی کی واپس ہمارے لیڈرشپ پر دباو ڈالنے کی ایک مذموم کوشش ہے۔ انہوں نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اگر انہیں کچھ ہوگیا تو ذمہ دار یہی حکومت ہوگی۔
اسی طرح پشاور کے سینئیر صحافی عزیز بونیری نے بھی حکومت کے اس فیصلے کو عجیب قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ جب صوبے اور بالخصوص پشاور میں حالات ایک بار پھر خراب ہوئے ہیں تو ایسی حالت میں ان رہنماوں سے سکیورٹی واپس لینا تشویش ناک اور ناقابل فہم ہے۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے عزیز بونیری کا کہنا تھا کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کی وجہ سے بدقسمتی سے ہمارے صوبے کے حالات ایک بار پھر نازک نظر آ رہے ہیں جس کی بڑی مثال پشاور میں گزشتہ روز افغان طالبان کے حق میں ریلی کا کھلم کھلا انعقاد، دیر میں پولیس پوسٹ پر حملے اور دیگر چند ایسے واقعات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امیر حیدر ہوتی ہو یا افتاب شیرپاو۔ ایمل ولی خان ہو، میاں افتخار حسین یا امیر مقام، حکومت اور پولیس سمیت سب جانتے ہیں کہ یہ لوگ دہشت گردوں کے ہٹ لسٹ پر ہیں اور ان کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ بجائے ان کی سکیورٹی بڑھانے کی ان سے موجودہ پولیس اہلکار واپس بلوانے کا فیصلہ ان کی زندگیوں کو خطرے سے دوچار کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حتیٰ کہ حکومت کی جانب سے چند اپنے سیاسی رہنماوں سے بھی سکیورٹی واپس لی گئی ہے لیکن پھر بھی بظاہر ایسا لگ رہا ہے اور یہی عام تاثر جا رہا ہے کہ پی ٹی حکومت یہ سب کچھ مخالفت اور خزب اختلاف سے بغض میں کر رہی ہے۔ عزیز بونیری نے کہا کہ حکومت نے اس قدم سے ایک منفی روایت شروع کی ہے جسے مستقبل میں حکومت میں آنے والی دیگر پارٹیاں بھی اپنا سکتی ہے۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے بحث جاری ہے۔ پشاور میں ایک نجی ٹیلی ویژن اور اخبار کے لئے کرائم بیٹ کی رپورٹنگ کرنے والے احتشام خان نے فیس بک پر سٹیٹس میں اس فیصلے کو سراہا ہے اور کہا ہے کہ ایلیٹ فورس کے تین اہلکاروں کی ایک مہینے کی تنخواہ ایک لاکھ بیس ہزار روپے تک بنتی ہے، پولیس نے ان اہلکاروں کو عوام کی حفاظت کے لئے بھرتی کیا ہے نہ کہ اشرافیہ کے پروٹوکولز کے لئے۔ احتشام نے مزید کہا ہے کہ فلور ملز، بڑے بڑے پلازے اور غیرملکی جائیدادیں رکھنے والے یہ سیاسی رہنما اور دیگر شخصیات بیس ہزار روپے ماہانہ میں اپنے لئے سکیورٹی گارڈ کیوں نہیں رکھ لیتے۔
تاہم عزیز بونیر ان کی اس موقف کی مخالفت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان شخصیات میں سابقہ وزیراعلیٰ سمیت سابقہ صوبائی اور وفاقی وزراء بھی شامل ہیں اور ان کو سکیورٹی کی فراہمی اور دیگر پروٹوکولز ان کے مراعات میں شامل ہیں۔
پشاور کے ایک اور سینیئر صحافی ظفر اقبال نے بھی کہا ہے کہ سیاسی رہنماوں سے سکیورٹی واپس لینے کا فیصلہ قابل ستائش ہے لیکن انہوں نے ساتھ میں پولیس سے سوال بھی پوچھا ہے کہ کیا ریٹائرڈ پولیس افسران سے بھی سکیورٹی اہلکار واپس کئے جائیں گے جو کہ بظاہر تو ان کی سکیورٹی پر معمور ہیں لیکن حقیقت میں یہ اہلکار ان افسران کے گھروں کے کام کاج کر رہے ہیں۔
انہوں نے پشاور میں مقیم ایک ریٹائرڈ ڈی آئی جی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے پاس اس وقت 18 پولیس اہلکار سکیورٹی سمیت ان کے گھر کے کام کاج کر رہے ہیں، جن میں کچھ تو دیسی مرغیوں کو دانہ ڈالنے پر معمور، چند کو کچن کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اور چند ایک مالی کے امور بھی سرانجام دے رہے ہیں جبکہ دو اہلکار ان کے بیٹے کے میمنے (دنبے کے بچے) کا خیال رکھ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ اگر سیاسی رہنماوں سے سکیورٹی واپس لی جا سکتی ہے تو ان ریٹائرڈ پولیس افسران سے کیوں نہیں۔