خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

خواتین ووٹرز کی رجسٹریشن مردوں کی نسبت کیوں کم ہے؟

رفاقت اللہ رزڑوال

پاکستان میں انتخابات کے انعقاد کے ذمہ دار ادارے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کہا ہے کہ گزشتہ سال کی نسبت ملک بھر کے 80 فیصد اضلاع میں خواتین ووٹرز کی رجسٹریشن میں دس فیصد کمی واقع ہوئی ہے جن میں خیبر پختونخوا کے 11 اضلاع بھی شامل ہیں۔

صنفی مساوات پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین کے انتخابی عمل میں حصہ نہ لینے کی بنیادی وجہ شناختی کارڈ بنانے کے مشکل مراحل سے گزرنا، علاقے کی منفی رسوم اور منفی معاشرتی رویے ہیں۔

خیبر پختونخوا الیکشن کمیشن کے مطابق صوبے کے 11 اضلاع میں خواتین ووٹرز کی رجسٹریشن 10 فیصد کم ریکارڈ کی گئی ہے، کمیشن کے مطابق خواتین کو رجسٹرڈ کرنے کیلئے نادرا اور دیگر متعلقہ اداروں کے ساتھ باہمی تعاون جاری ہے۔

ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے خصوصی بات چیت میں پشاور یونیورسٹی کے شعبہ صنفی مساوات کے استاد پروفیسر ڈاکٹر درویش آفریدی کا کہنا ہے کہ خواتین ووٹرز رجسٹریشن میں دلچسپی اس لئے نہیں رکھتیں کہ ریاست خود اس سلسلے میں اقدامات نہیں اُٹھاتی، ”معاشرے میں خواتین کو وہ تعلیم، اور شعور نہیں دیا گیا ہے جس کی انہیں اشد ضرورت ہے۔”

درویش نے بتایا، "دیہاتی علاقوں کو شہری سہولیات فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ وہاں پر خواتین کیلئے سکول بنیں، خواتین کی حوصلہ افزائی کی جا سکے، تعلیم کے حصول کیلئے انہیں آمادہ کیا جا سکے اور یہ سب ریاستی خدمات کے زمرے میں آتے ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان ایک سیکورٹی سٹیٹ بن چکا ہے اور عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کوئی خاص اقدامات نہیں اُٹھائے جا رہے نہ ہی خواتین کو ریاستی امور میں حصہ دار بنانے کی کوشش ہوتی نظر آ رہی ہے۔”

ڈاکٹر درویش نے اس سوال کا کہ خواتین کو اپنی ووٹ کی طاقت کا احساس دلوانے کیلئے مرد کیا کردار ادا کر سکتے ہیں، جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایک قدامت پسند معاشرے میں سب سے پہلے مردوں کو آمادہ کیا جائے گا، حکومتی سطح پر تبلیغات، سیمینارز اور دیگر طریقوں سے شعور اُجاگر کرنے کیلئے اقدامات اُٹھانے پڑیں گے، "مردوں کو اس بات پر قائل کرنا ہو گا کہ عورت کو مرد کے برابر تسلیم کیا جائے، خواتین کی ووٹ کی اہمیت کو سمجھا جائے تاکہ خاتون بھی عوامی امور میں بڑھ چڑھ حصہ لیں۔”

ڈاکٹر درویش نے کہا کہ اکثر خواتین شناختی کارڈ بنانے یا الیکشن پروسسز میں اس لئے حصہ نہیں لیتی کہ وہاں پر جاری عمل انتہائی مشکل ہوتا ہے، کئی کئی گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے، اگر یہ سارا عمل آسان کیا جائے تو حالات ٹھیک ہو سکتے ہیں۔

پاکستان میں شفاف اور آزاد انتخابات کیلئے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم فافین کے مطابق اس وقت مرد اور خواتین ووٹرز میں بلوچستان میں 14 اعشاریہ 4، خیبر پختونخوا میں 12 اعشاریہ 9، سندھ میں 10 اعشاریہ 2 اور اسلام آباد اور پنجاب میں 9 اعشاریہ 6 فیصد فرق ریکارڈ کیا گیا ہے۔

ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں فافین کے ڈائریکٹر پروگرامز مدثر رضوی نے بتایا کہ اس وقت ملک بھر میں خواتین کی تعداد مردوں کی نسبت ایک کروڑ پچیس لاکھ سے کم ہے اور دو ہزار سترہ میں نئے قانون کے مطابق الیکشن کمیشن کو پابند بنایا گیا تھا کہ مہم چلائی جائے تاکہ خواتین کی ووٹنگ رجسٹریشن بڑھ جائے لیکن 2018 کے بعد شرح میں مزید کمی دیکھنے کو ملی۔

مدثر رضوی نے کہا کہ رجسٹریشن میں کمی کی اصل وجہ خواتین کے پاس شناختی کارڈ کی عدم موجودگی ہے کیونکہ قانون کے مطابق وہ شخص رجسٹرڈ ہو گا جس کے پاس شناختی کارڈ ہو اس لئے نادرا پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام کو شناختی کارڈ بنانے کیلئے سہولیات فراہم کرے۔

انہوں نے کہا کہ نادرا دوردراز علاقوں کے لوگوں کو اپنی موبائل وینز کے ذریعے یہ سہولت فراہم کر سکتی ہے، اس سے نہ صرف ووٹ رجسٹرڈ ہو گا بلکہ صحت کارڈ، احساس پروگرام، سرکاری زکواۃ خیرات اور بینک اکاؤنٹ سے بھی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں تو اسی طرح دیگر سہولیات کے ساتھ ریاست کے ساتھ منسلک بھی ہو سکتے ہیں اگر نادرا سپورٹیو رول ادا کرے تو۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن مرد اور خواتین کی ووٹنگ رجسٹریشن میں فرق ختم کرنے کیلئے کوشاں ہے، الیکشن کمیشن کا دعوہ ہے کہ آرٹیکل 25 کے تحت تمام شہریوں کو برابری کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔

جاری کردہ اعلامیے کے مطابق اس وقت پورے ملک کے 80 اضلاع میں فرق 10 فیصد سے زیادہ ہے جن میں خیبر پختونخوا کے گیارہ اضلاع میں پشاور، چارسدہ، مردان، صوابی، ہنگو، لکی مروت، ڈی آئی خان، ٹانک اور دیگر شامل ہیں۔

اعلامیے کے مطابق سال 2020 میں اس فرق میں بہتری ہوئی تھی، اکتوبر 2020 میں مردوں کی نسبت خواتین ووٹروں کی تعداد 12 اعشاریہ 41 فیصد کم تھی جو اپریل 2021 میں بہتر ہو کر 12 اعشاریہ 37 فیصد ہو گئی تھی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button