قومی

گھریلو تشدد کا بل اسلامی نظریاتی کونسل بھیجنے کی سفارش

قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور شدہ گھریلو تشدد کی ممانعت اور تحفظ کا بل کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی بھیجنے کے لیے سپیکر قومی اسمبلی کو خط ارسال کردیا گیا ہے۔ یہ خط پارلیمانی امور کے لیے وزیراعظم عمران خان کے مشیر ظہیر الدین بابر اعوان کی جانب سے سپیکر قومی اسمبلی کو لکھا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گھریلو تشدد کی ممانعت اور تحفظ کا بل قومی اسمبلی سے پاس کیا جا چکا ہے اور سینیٹ میں بھی کچھ ترامیم کے بعد دوبارہ اس کو قومی اسمبلی بھیج دیا گیا ہے۔

خط میں آگے کہا گیا ہے کہ اس بل کے حصوں اور بعض تعارفات پر مختلف لوگوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے بل میں کچھ ایسی چیزیں شامل ہیں جو اسلامی تعلیمات کے متضاد ہے۔ خط میں مزید کہا گیا ہے قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا، اس لیے بل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا جائے۔

خیال رہے کہ خاندانی تشدد کے امتناع اور تحفظ کا بل2021 قومی اسمبلی اورسینیٹ سے منظور ہوچکا ہے۔ خاندانی تشدد کی روک تھام کے بل میں بیوی کو تنبیہ کرنے یا وارننگ دینے کو قابل تعزیر جرم قرار دیا گیا تھا جبکہ بل میں والدین کا اولاد کو تنبیہ کرنا بھی قابل دست اندازی پولیس جرم قرار دیا گیا تھا۔

بل کے تحت جرم میں6 ماہ سے3 سال قید اور20 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک جرمانے کی منظوری دی گئی تھی۔

عدالت میں درخواست آنے کے 7 روز کے اندر سماعت ہوگی اور فیصلہ 9 روز میں ہوگا۔ بل کے تحت متاثرہ شخص کو مشترکہ رہائش گاہ میں رہنے کا حق حاصل ہوگایا جوابدہ رہائش کا بندوبست کرےگا یا شیلٹر ہوم مہیا کیا جائے گا۔ تشدد کرنے والے شخص کو متاثرہ شخص سے دور رہنے کے احکامات بھی دیے جائیں گے اور  تشدد کرنے والے شخص کو جی پی ایس ٹریکر پہننے کی ہدایت دی جائےگی۔

بل کے مطابق گھریلو تشدد سے مراد جسمانی ، جذباتی ، نفسیاتی ، جنسی اور معاشی بدسلوکی ہے اور جس سے متاثرہ شخص میں خوف پیدا ہو، یا جسمانی اور نفسیاتی نقصان ہو۔

یاد رہے بل جب سینیٹ میں پیش کیا گیا تھا تب جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے بھی بل کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ بل کی نیت درست اور بہت اچھی ہے لیکن اس سے آپ اپنی خاندانی نظام ختم کر رہے ہیں، کیا بیٹی ، بیٹا ، بچہ اپنے ماں باپ کے خلاف جائے گا؟ بل میں مختلف تعریفوں میں ابہام ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ بل میں میاں بیوی کے درمیان مصالحت اور صلح کا پہلو نکال دیا گیا ہے، آپ نے براہ راست حکومت کو اختیار دے دیا ہے کہ وہ گھر جائیں ، بل میں کہا گیا ہے کہ طلاق اور دوسری شادی کا  خطرہ ہو ، طلاق آدمی کا حق ہے،  خلع عورت کا اور دوسری شادی مرد کا حق ہے۔

 انہوں نےکہا کہ پنجاب اسمبلی نے بھی بالکل ایسا قانون پاس کیا جس پر اسلامی نظریاتی کونسل نے شدید تحفظات کا اظہار کیا، اس بل پر اسلامی نظریاتی کونسل اور علماکی رائے لی جائے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button