”ہم اللہ کے آسرے پے بیٹھے ہیں ہمارا پوچھنے والا کوئی نہیں ہے”
کائنات
مردان سے تعلق رکھنے والی بیوہ خاتون امشیدہ پچھلے گیارہ سال سے بنجارن کے حیث پہ کام کررہی ہیں اور انہیں پیسوں سے اپنا پیٹ پال رہی ہیں۔ ان کا شوہر اینٹوں کی ایک بھٹی میں مزدوری کرتا تھا اور اب اس کو فوت ہوئے 11 سال ہو گئے ہیں۔ ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران امشیدہ نے بتایا کہ میں اب بنجارن ہوں اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتی ہوں، اس کے علاوہ کوئی آسرا نہیں ہے سب سے بڑے بچے کو کینسر ہے، میری دو بیٹیوں کی شادی ہو چکی ہے، ہم اللہ کے آسرے پے بیٹھے ہیں ہمارا پوچھنے والا کوئی نہیں ہے، یعنی یہاں پر غریب اور یتیم لوگ ہیں لیکن پوچھنے والا کوئی نہیں اس بات پر میں حکومت سے بہت زیادہ ناراض ہوں۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں کا رویہ کچھ اس طرح ہے کہ میں عورتوں کے استعمال کی چیزیں بیچتی ہوں جو چیز میرے بس میں ہوتی ہے میں اسے فروخت کرتی ہوں، جو لوگ ظرف والے ہوتے ہیں وہ چیزیں اگر لیتے ہیں تو لے جاتے ہیں لیکن جو لوگ کم ظرف ہوتے ہیں ان کا رویہ ہمارے ساتھ ٹھیک نہیں ہوتا زیادہ تر ہم پر الزام تراشی کرتے ہیں کہ یہ لوگ چوری اور ڈکیتی کرتے اور جاسوسی کرنے آتے ہیں۔ بنجارن کا کام اس لیے شروع کیا کہ شوہر کے فوت ہونے کے بعد اور کوئی آسرا نہیں تھا۔
میں 20 سال سے بنجارن کا کام کرتی ہوں۔ صبح سے شام تک گھر گھر جاتی ہوں۔ جو کچھ کماتی ہوں بس اس پر بچوں کے لیے رزق لاتی ہوں اور جب کچھ مزدوری نہیں ہوتی تو سب ایسے ہی سو جاتے ہیں۔
گھر اور کمروں کی دیواریں بھی بہت زیادہ خراب ہیں، گھر کی چھت کسی بھی دن ہم پہ گر سکتی ہے، ہمارا گھر ایک چوٹی پے ہے اور نیچے ایک نالہ بہتا ہے، مون سون بارشوں کے دوران ہم گھر کے صحن میں کھڑے ہوتے ہیں اس ڈر کے مارے کہ کہیں یہ نالہ ہمارے گھر کو اجاڑ نہ دے۔
بس سب یہ حالات ہیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہے ارد گرد بھی سارے ناچار اور غریب لوگ آباد ہیں ساتھ ہی مالدار لوگ بھی ہیں جو ووٹ لینے کے لیے تو آتے ہیں لیکن ووٹ لے کر پھر پوچھتے بھی نہیں ہیں ہمارا۔
میں سارا سودا مردان کے ایک مارکیٹ سے قرض لاتی ہوں۔ بعض دفعہ جب سودا نہیں فروخت ہوتا تو دکاندار اپنا قرض مانگتے ہیں اور میرے پاس پیسے نہیں ہوتے۔
‘میں خود دل کی مریضہ ہوں اور ہاتھ پاؤں میں دم نہیں ہوتا لیکن کیا کروں اس کے علاوہ زندگی نہیں گزرتی۔ اس دنیا میں اچھے لوگ بھی بہت ہیں اور برے بھی۔ جو اچھے ہوتے ہیں وہ ماؤں کی طرح سلوک کرتے ہیں اور جو برے ہوتے ہیں ان سے مجھے بہت ڈر لگتا ہے لیکن اور کوئی راستہ نہیں ہے اس کے علاوہ۔ جو میں کماتی ہوں وہ میرے علاج کے نہیں ہوتے تو خرچے کیا پورے ہوں گے’ امشیدہ نے بتایا۔
جب میں باہر جاتی ہوں تو میرا ایک بیمار بیٹا اور اس کی بیوی گھر پر ہوتے ہیں۔ پہلے اس کام میں میرا بہت گزارا ہوتا تھا لیکن اب مہنگائی اتنی ہے کہ کچھ گزارا نہیں ہوتا کیونکہ میں اگر ایک ہفتہ کام کروں تو آٹے کی ایک تھیلی نہیں لا سکتی بس وقت ہے گزر جاتا ہے۔
اب تک حکومت نے جتنے بھی پیسے تقسیم کیے ہیں اس میں ہمیں ایک بھی روپیہ میں ملا۔ حکومت کو پہلے یتیموں اور بیواؤں کا پوچھنا چاہیے۔ بینک میں جب پیسے لینے جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ آپ کے پیسے نہیں آئے ہیں یہ سن کر خفا گھر آتی ہوں اور ایک دن کی مزدوری بھی ضائع ہو جاتی ہے۔”