پرانے وقتوں میں جہیز کی پہچان مس اور تانبے کے برتن اب کہیں نظر نہیں آتے
نسرین جبین
نثار حسین تانبے اور مس کے برتنوں کو کلئی کرکے چاندی کی طرح چمکا دیتا ہے وہ پشاور کے تاریخی علاقے تحصیل گورگھٹری میں دکان کرتا ہے۔ اس نے مس اور تانبے کے برتنوں کے حوالے سے مشھور قصہ خوانی بازار میں یہ کام اپنے باپ سے سیکھا لیکن اب اپنے بچوں کو نہیں سکھانا چاہتا جس کی وجہ یہ ہے کہ اب پشاور اور خیبر پختونخوا کی ثقافت ناپید ہوتی جا رہی ہے اور مس کے برتنوں کا استعمال انتہائی کم ہو گیا ہے۔ اب اسے (انٹیک) قدیم اشیا کے طور پر سجاوٹ کے لیے استعمال کیا جارہا ہے لیکن ایک وقت تھا کہ تانبے اور مس کے برتن خیبرپختونخوا کی ثقافت ،امیر گھرانوں کی پہچان اور شادی بیاہ میں بیٹیوں کے جہیز کی زینت ہوا کرتے تھے لیکن اب ان برتنوں کا رواج ختم ہوگیا ہے۔
اس حوالے سے45 ساکہ کاریگر نثار حسین نے ٹی این این کو بتایا کہ سینکڑوں اچھے اچھے کاریگروں نے یہ کام چھوڑ دیا ہے پلاسٹک، سلور اور سٹیل نے ہمارے کام اور ہنر کو ختم کر دیا نے پشاور میں صرف دو کاریگر رہ گئے ہیں تانبے اور مس کا استعمال ختم ہو گیا ہے پہلے شادی بیاہ پر تانبے اور مس کے برتن جہیز میں دیئے جاتے تھے اور وہی جہیز کی رونق ہوتے تھے کچھ لوگ آج بھی والدین کے زمانے کی چیزیں لا کر استعمال کرتے ہیں لیکن آجکل زیادہ تر لوگ عارضی زندگی گزار رہے ہیں مجھے یہ کام کرتے 30سال ہو گئے ہیں حالات اچھے نہیں ہے اور کوئی کام نہیں آتا کہ ہم کریں میرے بچے کہتے ہیں کہ یہ ہنرسکھاو لیکن میں کہتا ہوں کہ کہ کچھ نیا سیکھو اس کا اب فائدہ نہیں ہے ڈونگے اور پلیٹیں ، گوریاں ابھی بھی استعمال ہوتیں ہیں۔
پہلے زمانوں میں پائیداری تھی انسانوں کے رویوں اور مزاج میں بھی اور اشیا میں بھی لیکن اب سب کچھ عاضی ہوتا جا رہا ہے زندگی بھی عاضی اور کم ہو گئی ہے پہلے وقتوں کے لوگ ابھی بھی 85 ۔90 سا ل تک زندہ رہتے ہیں لیکن آج کے دور کے 50۔60 سال سے آگے کم ہی جاتے ہیں۔
نثار حسین کا کہنا ہے کہ تانبے کے برتنوں پر لگا کر انہیں چمکانے والی قدرتی دھات کلئی 2000 روپے کلو لایا کرتا تھا اب 6000 روپے پہ لاتا ہے نئے زمانے کے لوگ تانبے کو جانتے ہی نہیں ہے وہ پوچھتے ہیں کہ یہ کہ یہ کیا ہے سفید برتن کیسے ہیں چاندی کے ہیں؟
انہوں نے بتایا کہ پہلے زمانے میں مٹی کے اور تانبے کے برتن استعمال ہوتے تھے جو قدرتی اشیا سے دھات اور مٹی سے بنتے تھے اس لیے ان میں بیماریاں اور جراثیم کا خدشہ کم ہوتا تھا اور بیماریوں سے لڑنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی تھی لوگوں میں مٹی میں ٹھنڈک ہوتی تھی صاف ستھرے ہوتے تھے جراثیم سے پاک لیکن اب لوگوں نے مٹی کے برتنوں کا استعمال بھی چھوڑ دیا ہے۔
نثار حسین نے کہا کہ پرانی ثقافت کو نا بھولیں اسکا استعمال جاری رکھیں بزرگ استعمال کرتے تھے زندگی لمبی تھی صحت تھی اور اچھے بھی لگتے ہیں خوبصورت بھی ہیں اچھی ڈیزائنگ پھولکاری کی گئی ہوتی ہے اس پہ، سٹیل کے برتنوں میں پانی گرم اور کھانا ٹھنڈاہو جاتا ہے لیکن تانبے کا معاملہ اس کے برعکس ہے ڈسپوزیبل برتن مصنوعی طریقے سے بنتے ہیں اس لیے ان میں جراثیم ختم نہیں ہوتے جبکہ آلودگی اور گندگی بھی پھیلاتے ہیں ڈسپوزبل برتن استعمال کر کے پھینک دیئے جاتے ہیں آلودگی اور گندگی میں بھی اس سے اضافہ ہوتا ہے جبکہ تانبے اور مس کے برتن فائدہ مند ہیں ان کا نقصان نہیں ہے اس کو چھوڑ دینے سے ڈاکٹروں پر رش بڑھ گیا ہے کیونکہ بیماریاں بڑھ گئیں ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ لوگوں کو چاہیئے کہ وہ اپنی ثقافت کو نہ بھولیں اور مس اور تانبے کے برتنوں کا استعمال ایک بار پھر شروع کردیں۔