خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

”عاصمہ رانی کا ہارٹ سپیشلسٹ بننے کا خواب ادھورا رہ گیا”

عثمان دانش

میڈیکل کی طالبہ عاصمہ رانی قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، مرکزی مجرم مجاہد اللہ آفریدی کو سزائے موت سنا دی گئی ہے جبکہ اس کیس میں سہولت کار صدیق اللہ اور شاہ زیب کو بری کر دیا گیا۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج پشاور اشفاق تاج نے سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر کیس کا فیصلہ سنٹر جیل میں ملزمان کے سامنے سنایا، فیصلہ سناتے وقت مقتول عاصمہ رانی کے والد، ماں اور بھائی بھی سنٹرل جیل میں موجود تھے۔

عاصمہ رانی کے والد غلام دستگیر خان نے فیصلے پر اطمنان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کو امید تھی کہ عدالت انصاف پر مبنی فیصلہ کرے گی، ”مجھے عدالت سے انصاف ملا ہے عدالت کا مشکور ہوں، دو سہولت کاروں کو عدالت نے رہا کرنے کا حکم دیا ہے ان کو بھی سزا ملنی چاہیے تھی، میری بیٹی میڈیکل کی طالبہ تھی وہ ہارٹ سپیشلسٹ بننا چاہتی تھی لیکن ان کا خواب ادھورا رہ گیا، عاصمہ کے قتل کے بعد میرے بچوں کی تعلیم پر بھی اثر پڑا، بچے سکول کالج نہیں جا سکتے تھے، ملزمان سیاسی اثرورسوخ والے ہیں، حکومت سے مطالبہ ہے کہ ہمیں سیکیورٹی فراہم کی جائے۔”

یاد رہے کہ  ایوب میڈیکل کالج ایبٹ آباد کی طالبہ عاصمہ رانی کو جنوری 2018 میں کوہاٹ میں ان کے گھر کے سامنے فائرنگ کر کے اس وقت قتل کر دیا گیا تھا جب وہ رکشہ میں اپنی بہن کے ساتھ جا رہی تھیں، عاصمہ رانی نے زخمی حالت میں مرنے سے پہلے ویڈیو بیان میں ملزم مجاہد اللہ آفریدی کا نام لیا تھا۔

اس واقعے کے بعد مرکزی ملزم مجاہد اللہ آفریدی بیرونی ملک فرار ہو گیا تھا۔ 7 جولائی 2018 کو ملزم مجاہد آفریدی کو یو اے ای میں گرفتار کیا گیا اور خیبر پختونخوا پولیس نے انٹرپول کے ذریعے ان کو پشاور منتقل کیا، اس واقعے میں ملوث دو ملزمان صدیق اللہ اور شاہ زیب کو بھی پولیس نے 2018 میں گرفتار کیا تھا، شاہ زیب نے پشاور ہائیکورٹ میں ضمانت کے لئے درخواست بھی دائر کی جسے 20 جولائی 2018 کو عدالت نے خارج کیا تھا۔

عاصمہ رانی کے فیملی کی درخواست پر پشاور ہائیکورٹ نے کیس کو کوہاٹ سے پشاور منتقل کیا گیا تھا۔

ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے خصوصی بات چیت کے دوران مقتولہ عاصمہ رانی کی ماں نے بتایا کہ وہ فیصلے سے خوش ہیں مگر واقعے میں ملوث مجرم کا بھائی بھی اسی جرم میں برابر کا شریک ہے اور میری بیٹی پر دونوں نے گولیاں برسائی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملزم صادق اللہ نے دونوں بھائیوں کو موٹرسائیکل فراہم کی اور فون پر رابطے میں رہا جس کی وجہ سے دونوں نے میری بیٹی کو دو پستولوں سے مارا تھا لہذا عدالت باقی دو افراد کو بھی سزا دے۔

عاصمہ رانی کی ماں کا کہنا ہے ” بڑی مشکل سے اخراجات پوری کر رہے تھے اور بچی پر ڈاکٹری کا سبق پڑھا رہے تھے، آج اُن کی موت کو ساڑھے تین سال ہو چکے ہیں، اُن کے کلاس فیلو ڈاکٹرز بن چکے ہیں، میری بھی خواہش تھی کہ بیٹی ڈاکٹر بن جائے لیکن لوگوں نے نہیں چھوڑا۔”

اُنہوں نے کہا "مجرم اُن کی بیٹی سے زبردستی شادی کرنا چاہتا تھا، انہوں نے کوئی رشتہ نہیں بھیجا، اگر کوئی رشتہ بھیجا ہوتا تو آج پورے گاؤں کو معلوم ہوتا لیکن وہ بیٹی کی بے عزتی کرنا چاہتے تھے۔”

فیصلے کے بعد عاصمہ رانی کے والد غلام دستگیر اپنے خاندان کے تحفظ کے حوالے سے پریشان ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ایک سرکاری ملازم تھے اور مشکل مالی حالات میں اپنی بیٹی کا کیس لڑا، اب انہیں ڈر ہے کہ مخالفین ان کے خاندان کو کہیں نقصان نہ پہنچائیں۔

کہتے ہیں کہ کیس کے دوران بھی اُن کے اوپر سیاسی اور علاقے کے غنڈوں کی طرف سے راضی نامہ کرنے کیلئے دباؤ ڈالا گیا مگر صلح اس لئے نہیں کی کہ آئندہ کوئی خاتون کے ساتھ ایسی حرکت نہ کرے۔

غلام دستگیر کہتے ہیں "مجرم کا تعلق حکومتی سیاسی خاندان سے ہے، پیسوں اور تعلقات کے لحاظ سے مضبوط ہیں، ہمیں خطرہ ہے کہ کہیں وہ ہمیں فیصلے کی وجہ سے نقصان نہ پہنچائیں۔”

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button