”عورت مختصر کپڑے پہنے گی تو مردوں پر اثر تو پڑے گا”
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ عورت مختصر کپڑے پہنے گی تو مردوں پر اثر تو پڑے گا۔
امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں ملک میں فحاشی اور جنسی زیادتیوں کے بڑھتے واقعات کے تناظر میں ان کے ایک بیان سے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میں نے کبھی نہیں کہا عورتیں برقعہ پہنیں، پردے کا تصور یہ ہے کہ معاشرے میں بے راہ روی/ترغیب سے بچا جائے، ہمارے ہاں ڈسکوز اور نائٹ کلب نہیں، لہٰذا اگر معاشرے میں بے راہ روی بڑھے گی اور نوجوانوں کے پاس کوئی راستہ نہ ہو گا تو اس کے معاشرے کیلئے مضمرات/خراب نتائج ہوں گے۔
اسی سے متعلق ایک اور سوال، کہ آیا خواتین کے لباس کا اس ”ترغیب” سے کوئی لینا دینا ہے، کے جواب میں وزیراعظم نے بتایا کہ ہاں! اگر خواتین کم (مختصر) لباس پہنیں گی تو اس کا اثر روبوٹ پر نہیں ہو گا مردوں پر تو ضرور ہو گا اور یہ عام فہم کی بات ہے، جہاں تک جنسی تشدد ہے اس کا تعلق معاشرے سے ہے، جس معاشرے میں لوگ ایسی چیزیں نہیں دیکھتے وہاں اس سے اثر پڑے گا لیکن امریکا جیسے معاشرے میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
زمانہ کرکٹ میں اپنی پلے پوائے جیسی زندگی سے متعلق سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ یہ میری ذات کی نہیں بلکہ میرے معاشرے کی بات ہے، میری ترجیح یہ ہے کہ میرا معاشرہ کیسے برتاؤ کرتا ہے اور کیا ردعمل آتے ہیں، لہذا جب ہمارے ہاں جنسی جرائم بڑھتے ہیں تو ہم بیٹھ کر اس مسئلے کا حل سوچتے ہیں۔
قبل ازیں افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کے بعد کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ امریکہ کے جانے پر انہیں خوشی اس لئے ہیں کیونکہ افغان تنازعہ کا کوئی فوجی حل نہیں، لیکن ساتھ ہی انہیں رتشویش بھی ہے کیونکہ سیاسی حل کے بغیر امریکہ کے چلے جانے سے افغانستان میں خانہ جنگی کا خطرہ ہے، سیاسی حل یہ ہو سکتا ہے کہ ایک اتحادی حکومت تشکیل دی جائے جس میں طالبان اور دوسرے فریق شامل ہوں۔
عمران خان نے کہا کہ جو بھی افغان عوام کی نمائندگی کرتا ہے ہم اس سے رابطہ رکھیں گے، طالبان نے افغان جنگ میں فیصلہ کن فتح کی مہم شروع کی تو بڑے پیمانے پر خون ریزی ہو گی جس کے نتیجے میں افغانستان کے بعد جو ملک سب سے زیادہ متاثر ہو گا وہ پاکستان ہی ہے، لہذا امریکا کو انخلا سے قبل لازماً سیاسی حل نکالنا ہو گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان امریکا اور سی آئی اے کو افغانستان میں فوجی کارروائیوں کے لیے اپنی سرزمین اور فوجی اڈے فراہم نہیں کرے گا، کیونکہ امریکا کی جنگ میں سب سے زیادہ پاکستان کا نقصان ہوا ہے، ہمارے 70 ہزار افراد کی جانیں گئی ہیں، ہم اس جنگ کے مزید متحمل نہیں ہو سکتے، ہم امن میں شراکت دار ہوں گے لیکن جنگ میں نہیں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم افغانستان میں کارروائیوں کے لیے امریکی ایئرفورس کو اپنی فضائی حدود بھی استعمال نہیں کرنے دیں گے، آخر جب 20 سال تک کوئی فائدہ نہ ہوا تو اب امریکا کیوں افغانستان پر بمباری کرے گا، اس کا اب کیا فائدہ ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ برصغیر میں 1.4 ارب کی آبادی ہے جو کشمیر کے تنازعہ کی وجہ سے یرغمال بنی ہوئی ہے، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق وہاں استصواب رائے ہونا چاہیے، اگر امریکا چاہے تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
وزیراعظم نے بتایا کہ پاکستان کا جوہری پروگرام صرف ملک کے دفاع کے لیے ہے، یہ کسی ملک کے خلاف جارحیت کے لیے نہیں ہے، میں جوہری ہتھیاروں کے خلاف ہوں، مجھے پاکستان اور بھارت کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک ہونے پر خوشی ہو گی، کشمیر کا مسئلہ حل ہو گیا تو ان ہتھیاروں کی ضرورت نہیں رہے گی۔
چین میں ایغور مسلمانوں پر مظالم سے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ چینی حکومت کے مطابق ایسا نہیں ہے، چین نے ہر مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیا ہے، مغربی دنیا میں کشمیر کو کیوں نظرانداز کیا جاتا ہے۔