خیبر پختونخوافیچرز اور انٹرویو

اگر شوہر کے خلاف تھانے جاؤں گی تو پھر کہاں رہوں گی؟

خالدہ نیاز

 

خیبر پختونخوا میں آٹھ سال سے تاخیر کا شکار خواتین کے خلاف گھریلو تشدد سے بچاؤ اور حفاظت بل کچھ مہینے پہلے اسمبلی سے پاس ہوگیا ہے لیکن زیادہ تر خواتین ابھی تک اس سے ناواقف ہے اور جن کو اس حوالے سے معلومات ہیں بھی تو مختلف وجوہات کی بنا پر وہ اس سے استفادہ حاصل نہیں کرنا چاہتی۔

ضلع مردان کے علاقے تمبولک سے تعلق رکھنے والی پلوشہ کہتی ہیں کہ اسکی شادی کو 8 سال ہوگئے ہیں اور تین بچوں کی ماں ہیں۔ وہ کہتی ہیں ان کا شوہر ان پر بہت تشدد کرتا ہے اور چھوٹی چھوٹی بات پر انکو مارتا پیٹتا ہے لیکن انکو اپنی والدہ نے کہا ہوا ہے کہ پختون خواتین ہر حال میں اپنے شوہر کی عزت کرتی ہیں اور اس کے خلاف کوئی بات بھی نہیں کرتی اس کے خلاف رپورٹ درج کرنا تو بہت بڑی بات ہے۔

شوہر جیسا بھی ہو اس کے ساتھ وقت گزارو

‘ ابھی چند روز پہلے بھی میرے شوہر نے مجھے بہت مارا ہے لیکن میں پھر بھی اس کے خلاف تھانے نہیں جاسکتی کیونکہ میرے والدین نے مجھے کہا ہے کہ اپنا وقت گزارو ابھی وہی تمہارا گھر ہے، چاہے تمہارا شوہر نشئ کیوں نہ ہو اس کے گزارہ کرو ‘ پلوشہ نے کہا۔

پلوشہ نے مزید کہا ہے کہ انکا شوہر مارتے وقت کبھی ان کا پاؤں توڑ دیتا ہے تو کبھی ہاتھ لیکن جب ان سے کوئی حوالے سے پوچھتا ہے تو یہ انکو بتاتی ہے کہ سیڑھیوں سے گرگئی تھی کیونکہ اگر اس نے کسی کو سچ بتادیا تو اس کا گھر خراب ہوجائے گا اور پھر اس گھر میں اس کے لیے رہنا مشکل ہوجائے گا۔ ‘ میرا شوہر مجھے بہت مارتا پیٹتا ہے لیکن میں اس کو کچھ نہیں کہتی اور اگر کوئی پوچھ لے مجھ سے تو میں کہتی ہوں کہ گھر میں کام کرتے ہوئے گرگئی تھی کیونکہ اگر میں نے اپنے شوہر کے خلاف رپورٹ درک کرلی تو پھر تو یہاں نہیں رہ پاؤں گی، میرے بچے بھی ہیں پھر ہم کہاں جائیں گے’

اگر کوئی خاتون گھریلو تشدد کے خلاف آواز اٹھائے تو اس کے کردار پر انگلیاں اٹھتی ہیں

خیبرپختونخوا میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم عورت فاؤنڈیشن کی رکن شبینہ آیاز کہتی ہیں کہ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں عرصہ دراز سے خواتین پر تشدد ہوتا چلا آرہا ہے اور لوگ اس کو تشدد مانتے بھی نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ اگر کوئی خاتون گھریلو تشدد کے خلاف آواز اٹھابھی لے تو پھر اس کے کردار پر انگلیاں اٹھنا شروع ہوجاتی ہیں کہ یہ ٹھیک خاتون نہیں ہے تو اس وجہ سے زیادہ تر خواتین خواہش کے باوجود بھی گھریلو تشدد کے خلاف آواز نہیں اُٹھاتی۔ ‘ خواتین اس لیے بھی آواز نہیں اٹھاتی کیونکہ وہ معاشی طور پر کمزور ہیں، اگر شوہر اس کو گھر سے نکال دے گا تو پھر وہ کہاں جائے گی، والدین اور بھائی اس کو پال نہیں سکتے اور وہ خود کچھ کرنہیں سکتی تو اس وجہ سے بھی وہ ظلم سہتی ہیں اور خاموش رہتی ہیں’

شبیہ آیاز کہتی ہیں ان کا ادارہ گزشتہ 22 سال سے گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے کام کررہا ہے اور بل منظور کرنے کے لیے بھی انہوں نے کافی کام کیا ہے اور اب وہ کوشش کررہے ہیں کہ جو بل پاس ہوا ہے اس حوالے سے خواتین میں شعور اجاگر کرسکیں تاکہ خواتین کو پتہ چل سکے کہ اب گھریلو تشدد جرم ہے اور یہ انکے خلاف آواز اٹھا سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گھریلو تشدد کے خاتمے کے لیے خواتین کو خود بھی کردار ادا کرنا ہوگا۔

گھریلو تشدد کے خاتمے کے لیے خواتین کو بھی کردار ادا کرنا ہوگا

‘ گھریلو تشدد کے خاتمے کے لیے خواتین کو بھی کردار ادا کرنا ہوگا ایک تو آواز اٹھانی ہوگی کہ مرد انکے ساتھ زیادتی کررہا ہے انکو مارتا پیٹتا ہے اور دوسری اہم بات یہ کہ ماؤں کو اپنے بیٹوں کی تربیت ایسی کرنی ہوگی کہ انکو بتائے کہ خواتین پر ہاتھ اٹھانا اچھی بات نہیں ہے اور یہ مرد کو زیب نہیں دیتا’ شبینہ آیاز نے کہا۔

یاد رہے خیبرپختونخوا میں گھریلو تشدد کے خاتمے کا بل پہلی مرتبہ سال 2012 میںں اسمبلی میں پیش ہوا تھا لیکن مذہبی جماعتوں اور اسلامی نظریاتی کونسل کی مخالفت کی وجہ سے تاخیر کا شکار تھا اور رواں سال کے اوائل میں اسمبلی سے منظور ہوگیا۔ بل کے تحت خواتین پر تشدد کرنے والے کے خلاف پانچ سال تک قید اور جرمانے عائد کیے جائیں گے۔ اس مقصد کی خاطر ایک ہیلپ لائن بھی قائم کی جائے گی اور تشدد کی صورت میں 15 دن کے اندر عدالت میں درخواست جمع کی جائے گی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button