بلاگزقومی

جب ایک نابینا شخص نے طارق عزیز سے سلام نہ کرنے کی شکایت کی

رانی عندلیب

 

’ابتداء ہے ربِ جلیل کے بابرکت نام سے، جو دلوں کے بھید جانتا ہے دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام!‘‘
یہ الفاظ اب ہمیں زندگی بھر سننے کو نہیں ملیں گے کیونکہ یہ الفاظ جس شخصت کے تھے وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔
کہا جاتا ہے کہ طارق عزیز سے ایک اندھا شخص ملا تو طارق عزیز کے شو کی بہت تعریف کی کہ آپ کا شو تو سنتا ہوں لیکن دیکھ نہیں سکتا اور کوئی شو سننا مس نہیں کرتا آپ سب کو سلام کرتے ہیں لیکن نابینا کو سلام نہیں کرتے اس دن کے بعد سے طارق عزیز نے یہ مشہور جملہ کہنا شروع کیا جو طارق عزیز کو تا قیامت تک زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔

آج ملک بھر میں طارق عزیز کی پہلی برسی منائی جارہی ہے تو میں نے سوچا کیوں طارق عزیز کے حوالے سے کچھ لکھوں کیونکہ ریڈیو پاکستان کے نیوز کاسٹر، پاکستان ٹیلی ویژن کی پہلی نشریات کی میزبانی کا شرف بھی طارق عزیز کو حاصل ہے اور میں خود بھی انکے پروگرام دیکھے ہیں۔ ان کا انداز گفتگو ہی نرالی تھی جو ہر کسی کو اپنی جانب کھینچ لیتی تھی۔ اس کے علاوہ پاکستان ٹیلی ویژن کے پہلے مرد اناؤنسر، نیلام گھر کی جان ، فلمساز، رکنِ پارلیمنٹ، پنجابی شاعر اور سیاسی کارکن ہونے کا اعزاز بھی طارق عزیز کے حصے میں رہا ہے۔

طارق عزیز 28 اپریل 1936 کو جالندھر میں پیدا ہوئے اور ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان منتقل ہوا۔ پاکستان بننے کے بعد 1950ء کی دہائی میں انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان لاہور سے کیا، جہاں انہیں ریڈیو سے خبریں پڑھنے کا خاصا اچھا تجربہ حاصل ہوا۔ ریڈیو کے اسی تجربے اور تقریری مقابلوں نے طارق عزیز پر جو رنگ ڈالا، وہ مرتے دم تک ان کی شخصیت پر چھایا رہا۔

ریڈیو کے بعد 1964 میں طارق عزیز پی ٹی وی کا خبرنامہ پڑھنے والے پہلے اناؤنسر کا اعزاز بھی انہیں حاصل ہے۔ طارق عزیز نے پاکستان کے سرکاری ٹیلی وژن (پی ٹی وی) کے کوئز شو ‘نیلام گھر’ سے شہرت حاصل کی جو سب سے پہلے 1974 میں نشر ہوا تھا۔بعد ازاں اس مقبول ترین شو کا نام بدل کر پہلے ‘طارق عزیز شو’ اور بعد میں ‘بزم طارق عزیز’ رکھ دیا گیا۔ نیلام گھر اپنے منفرد انداز اور طارق عزیز کی مہارت کی وجہ سے اپنا ایک الگ ہی مقام بنانے میں کامیاب رہا اور مقبول رہا۔ نیلام گھر جو بعد میں طارق عزیز شو تھا اس جیسے کئی شوز بہت سے پرائیویٹ چینل پر اور علاقائی سطح پر ہوِئے لیکن دوسرے شوز کو وہ مقبولیت نہیں ملی جس طرح طارق عزیز شو پوری دنیا میں مشہور ہوئی. طارق عزیز اپنے کریئر میں ملک کے سب سے مہنگے ٹی وی ہوسٹ رہے ہیں انہوں نے ایک گھنٹے کا دس لاکھ تک معاوضہ لیا.

طارق عزیز 60 اور 70 کی دہائی میں فلم انڈسٹری سے بھی وابستہ رہے جہاں انہوں نے لگ بھگ 25 فلموں میں مرکزی اور اہم نوعیت کے کردار ادا کیے ہیں۔ 1967 میں شباب کیرانوی پہلی فلم” انسانیت” ریلیزہوئی۔ ان کی دوسری یادگار ترین فلم ’’سالگرہ‘‘ 1969 میں ریلیز ہوئی۔

’’میری زندگی ہے نغمہ، میری زندگی ترانہ‘‘ اور(گانا) ’’لے آئی پھر کہاں پر، قسمت ہمیں کہاں سے‘‘ جیسے لازوال فلمی نغموں کی وجہ سے آج بھی وہ مشہور ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ‘ قسم اس وقت کی، کٹاری، چراغ کہاں روشنی کہاں، ہار گیا انسان جیسی فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔

طارق عزیز کالم نگار اور شاعر بھی تھے ان کے کالموں کامجموعہ ’داستان‘ اور پنجابی شاعری پر مشتمل کتاب ’ہمزاد دا دکھ‘ بھی شائع ہوئی تھی۔
وہ ادب اور شاعری سے گہری رغبت رکھتے تھے اور اس کی مثال یہ ہے کہ اُن کے چاہنے والوں نے دیکھا کہ اپنے 40 سالہ طویل ٹی وی شو میں کسی قابل ذکر شاعر کا کوئی ایسا شعر نہ تھا جو انھیں ازبر نہ ہوتا۔

1970 کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست میں ان کافعال کردار تھا۔ 1997ء کے انتخابات میں وہ مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ پر لاہور سے الیکشن لڑے، طارق عزیز1997سے 1999تک رکن قومی اسمبلی رہ چکے ہیں۔

انہیں زندگی کے مختلف شعبوں میں بہت سے ایوارڈ مل چکے ہیں۔ 14 اگست 1992 کو حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔ طارق عزیز 17جون 2020 کو طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے اور سب کو ہمیشہ کے لیے افسردہ چھوڑ کرچلے گئے لیکن وہ ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button